کوئٹہ میں پاک چین راہداری پر آل پارٹیز کانفرنس
عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس کا اقدام تاریخی تھا اور جس مسئلہ پر یہ کانفرنس بلائی گئی وہ پاک چائنا اکنامک کوریڈور کے حوالے سے تھا،جب سے اصغر اچکزئی نے پارٹی کی قیادت سنبھالی ہے پارٹی کی پیش رفت آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے اور ان کے ساتھ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور ممبر صوبائی اسمبلی انجینئر زمرک بھی متحرک ہیں وہ خوش اخلاق اور ملنسار شخصیت ہیں تاریخی کانفرنس کی کامیابی ان دونوں کی محنت اورسیاسی ذہن کی عکاسی کرتی ہے اصغر خان اچکزئی بلوچستان میں نئی سیاسی شخصیت کی حیثیت سے ابھررہے ہیں ان کی قیادت نے پارٹی میں نئی جان ڈال دی ہے مقامی ہوٹل میں کامیاب کانفرنس ان کی متحرک شخصیت کومزید جلا بخشے گی اور مستقبل کی سیاست میں اے این پی اپنا بہتر مقام حاصل کرے گی۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہبر محمودخان اچکزئی کے بعد اے این پی کے اصغرخان اچکزئی سیاست کے افق پر بڑی تیزی سے ابھررہے ہیں اچکزئی قبیلہ ایک لحاظ سے مردم خیز ہے اور اس میں سے حیرت انگیز شخصیات ابھری ہیں اور تجارت کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ دولت اچکزئی قبیلہ پر عاشق ہوگئی ہے سیاست اور دولت دونوں بے نیازی سے برسی ہیں خان عبدالصمد خان اچکزئی، سہیل خان اچکزئی، برات خان اچکزئی، امان اللہ خان اچکزئی، جو سہیل خان کے پوتے ہیں یہ سب سیاست میں نمایاں شخصیات ہیں سہیل خان اچکزئی 1956-58ء کی مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر تھے اور خان شہید 1970ء کی اسمبلی میں تھے او ران کی شہادت کے بعد محمودخان اچکزئی ممبر بنے اور ڈاکٹر حامد اچکزئی اب صوبائی وزیر ہیں قابل اور ذہین سیاستدان ہیں۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں محمدقاسم خان سامنے آئے۔
کانفرنس کا وقت دس بجے صبح تھا چھاؤنی کے ہوٹل میں پہنچا تو گاڑیوں کے رش سے اندازہ ہوا کہ میزبان اور مہمان آچکے ہوں گے ہال میں داخل ہوا تو نوجوان ورکر مہمانوں کے استقبال کے لئے موجود تھے کافی گہما گہمی نظر آرہی تھی پارٹی ورکر ٹیبل پر فہرست دیکھ دیکھ کر آنے والوں سے پارٹی تعلق پوچھ رہے تھے ان کے پاس پارٹیوں کی فہرست موجود تھی جب ہال میں داخل ہوا تو اکثر وبیشتر سیاسی پارٹیوں کے عہدیداران موجود تھے اسٹیج پر پارٹی کانام اور پاک چائنا کوریڈور کا نقشہ موجود تھا اس بینر پر دونقشے موجود تھے ایک نقشہ روٹ نمبر ون تھا اور دوسرا نقشہ روٹ نمبر دو تھا۔ اس نقشہ کو غور سے دیکھتا رہا میرے پاس بھی ایک رنگین نقشہ موجود ہے اس میں تین روٹ کی نشاندہی کی گئی ہے اگلی صف میں اسفندیار ولی خان، خورشید شاہ، جعفرخان مندوخیلِ اور ان کے ساتھ ممتاز سابق طالب علم رہنما اور موجودہ سیاسی لیڈر بسم اللہ خان کاکڑ براجمان تھے بسم اللہ خان کاکڑ پشتون زبان کے شعلہ بیان مقرر ہیں۔ ایچ ڈی پی کے عبدالخالق ہزارہ اپنی ٹیم کے ساتھ نشت پر بیٹھے ہوئے تھے عبدالخالق ہزارہ ایک ابھرتی ہوئی شخصیت ہیں اور مستقبل قریب میں ہزارہ قبیلہ کی بہترین نمائندگی کے لئے اسمبلی میں نظرآجائیں گے ایک سرسری نگاہ اسفند یار ولی خان پر ڈالی تو وہ کیمروں کی زد میں تھے ان کے دادا خان عبدالغفار خان سے ملاقات 1972ء میں لاہور میں ہوئی انہیں محمودعلی قصوری نے اپنے گھر پر دعوت دی تھی۔ مجھے گمان گزرتا ہے کہ اسفندیار ان کے ساتھ تھے۔
اس محفل میں نوابزادہ نصراللہ خان میاں طفیل محمد ،خدائے نور ودیگر سیاستدان موجود تھے خان غفارخان کو بڑے غور سے دیکھتا رہا وہ برطانوی سامراج سے بڑی قوت سے نبرد آزما رہے اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے جب کھانے کا وقت آیا تو ان کے بیٹے نے انہیں سہارا دے کر اٹھایا۔ ان کے ہاتھ بہت لمبے تھے وہ جب کرسی پربیٹھے ہوئے تھے تو ان کے ہاتھ گھٹنوں سے نیچے زمین پر لگ رہے تھے لمبے ہاتھ انتہائی ذہین شخص کے ہوتے ہیں وہ دبلے پتلے انسان تھے لیکن خوش خوراک تھے۔ پاکستان اور پشتونستان کے حوالے سے خوش گوار موڈ میں گفتگو چل رہی تھی ان کے بعد ولی خان سے ملاقاتیں رہیں جب وہ اسٹیورٹ روڈ پر قائم ہوٹل میں اپنی بیگم نسیم کے ساتھ تھے بیگم ولی نے میرا تعارف کرایا کہ یہ شادیزئی صاحب ہیں اور انہوں نے پارٹی کے حوالے سے ہماری کافی مدد کی جب خان عبدالولی خان بھٹو کے قیدی تھے تو بیگم ولی اور شیرباز مزاری کوئٹہ اپنی پارٹی پی ڈی پی بنانے کے لئے تشریف لائے تھے وہ لورڈز ہوٹل میں ٹھہر ے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھ سے مشورہ لیا کہ کس کو بلوچستان میں پارٹی کی ذمہ داری دی جائے تو اس وقت محمود عزیزکرد کا نام بتلایا اور انہوں نے پریس کانفرنس کرنا تھی تو مجھ سے پوچھا کہ کس طرح پریس کانفرنس ہو اور نکات کیا ہوں تو انہیں مختلف پہلوؤں سے بریفنگ دی اور نکات بتلائے دوسرے دن انہوں نے پریس کانفرنس کی اب اسفندیار ولی کو دیکھا تو نگاہوں میں 1974ء کے گزرے ہوئے واقعات بڑی تیزی سے گھوم رہے تھے اور میرے سامنے خان غفارخان کا پوتا بیٹھامختلف سوالوں کے جوابات دے رہا تھا یہ میری خوش قسمتی تھی کہ تین نسلوں کو دیکھ رہا تھا ہال پر ایک نگاہ ڈالی تمام سیاسی ومذہبی پارٹیوں کی نمائندہ شخصیات موجود تھیں مگر ان میں جماعت اسلامی کی قیادت میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا بڑی حیرت ہوئی کہ اتنے اہم مسئلہ پر کانفرنس ہورہی ہے۔ ملک کی تمام اہم قدآور شخصیات موجود ہیں اور صوبائی قیادت کہیں محو خواب تھی۔ زمرک خان نے کھانے کے وقفے میں مجھ سے پوچھا کہ جماعت کی قیادت کیوں نہیں آئی مجھے اس حوالے سے کچھ علم نہیں تھا۔
کچھ دیر بعد قرآن کریم کی تلاوت سے آغاز ہوگیا تلاوت سے اندازہ ہوا کہ پارٹی میں کوئی قاری نہیں ہے جمعیت سے مانگ لیتے تو بہتر ہوتا۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جناب افتخار حسین ادا کررہے تھے وہ انتہائی خوش مزاج انسان لگ رہے تھے اور پشتو زبان میں مختلف مرحلوں پر شعروں کا حسن انتخاب قابل تعریف تھا۔ مقررین میں جمعیت علماء اسلام کے ملک سکندر خان ایڈووکیٹ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق ہزارہ مسلم لیگ ق کے جعفرخان مندوخیل پشتونخوامیپ کے رضامحمد رضا، نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یاسین بلوچ بی این پی کے مرکزی رہنما سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، جمعیت نظریاتی کے مولانا عبدالقادر لونی، تحریک انصاف کے ہاشم خان جمعیت علماء اسلام س کے مفتی عبدالواحد بازئی قومی وطن پارٹی کے بسم اللہ خان لونی بی این پی عوامی کے ایڈووکیٹ آصف بلوچ، مولانا محمدخان شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین، اے این پی کے صوبائی صدر اصغرخان اچکزئی، بلوچستان بار کے صدر بلال خان کاسی( یہ محمدانور کاسی کے صاحبزادے ہیں) کیا تقریریں ہوئیں وہ سب اخبارات میں آچکا ہے پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رضامحمد رضا نے اعدادو شمار کے ساتھ بڑے خوبصورت انداز میں موقف بیان کیا ان کی تقریر سب سے بہتر تھی وہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان لگتے ہیں سیاست کے نشیب و فراز سے واقف ہیں اس لئے اب وہ اس نشیب وفرازکا کچھ کچھ لطف اٹھارہے ہیں ان کے بعد بی این پی عوامی کے ایڈووکیٹ آصف بلوچ کی بڑی سلجھی ہوئی اور موثر تقریر تھی خوب اعتماد سے اپنا موقف بیان کیا۔ ان کا موقف بی این پی عوامی سے زیادہ بی این پی مینگل کا لگ رہا تھا۔ تیسرے نمبر پر عبدالخالق ہزارہ کی تقریر متاثر کن تھی انہوں نے اپنے قبیلہ کے حوالے سے ظلم وستم کا موقف بیان کیا۔ پیپلزپارٹی کے قائد اور قائدحزب اختلاف قومی اسمبلی خورشید شاہ کی تقریر بس گزارہ تھی ۔
سامعین آخر تک جم کر بیٹھے رہے اور سب کو اطمینان سے سنا مہمانوں کے لئے علیحدہ کھانے کا اہتمام کیاگیا تھا اور پارٹی ورکر مہمانوں کی دیکھ بھال کے لئے موجود تھے ہال میں ایک پہلو زیادہ کھٹکا کہ ورکروں کی کوشش تھی کہ اگلی نشستوں پر بیٹھیں اس وجہ سے بعض مہمان پچھلی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے آخر میں تحریری طویل قرار داد پیش کی گئی وہ اخبارات کی زینت بن چکی ہے۔ آخر میں پارٹی کے مرکزی صدر کا مختصر خطاب تھا ان کی تقریر میں اپنے والد مرحوم خان عبدالولی خان کی جھلک نظر آتی ہے لیکن باپ کے مقام پرپہنچنے کے لئے انہیں کچھ اور انتظار کرنا ہوگا اس محفل میں سب سے الجھی ہوئی تقریر مولانا محمدخان شیرانی کی تھی وہ فلسفی بننے کی کوشش میں بے ربط گفتگو کرتے ہیں نہ اس کا کوئی سرا ہوتا ہے اور نہ اس کا کوئی آخر ہوتا ہے۔ ان کا ارشاد ملاحظہ ہو وہ فرماتے ہیں جہاں پارلیمانی جمہوریت ہو وہاں صدارتی نظام ہوتا ہے اور جہاں روایتی سیاست ہو وہاں وزیراعظم ہوتا ہے۔ ان سے ایک سوال تو کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ بھارت میں پارلیمانی نظام کے نتیجے میں تو وہاں صدارتی نظام نافذ نہیں ہوا ہے کیا خیال ہے آپ کا؟
قارئین محترم! آل پارٹیز کانفرنس وقت کی نزاکت اور پاک چائنا اقتصادی منصوبوں کی وجہ سے بہت ضروری تھی اور اس کا حق اے این پی کی صوبائی قیادت نے ادا کیا صوبائی قیادت جناب محمداصغرخان اچکزئی اور زمرک خان اور ان کی ٹیم مبارکبادکی مستحق ہے اور اس کانفرنس کی متفقہ قرار داد پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرے گی۔