پاکستان 1970ء سے بہت آگے نکل چکا ہے(1)

پاکستان 1970ء سے بہت آگے نکل چکا ہے(1)
پاکستان 1970ء سے بہت آگے نکل چکا ہے(1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بلوچستان میں فوج کے کورکمانڈر سدرن کمانڈ کی تبدیلی کے بعد جنرل عامر ریاض نے اپنی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ جنرل جنجوعہ اپنی یادیں چھوڑ کر رخصت ہوگئے فوج میں ان کے بارے میں مشہور تھا (Politician in Uniform) یعنی سیاستدان فوجی وردی میں۔۔۔ اور یہ مقولہ درست ثابت ہوا جب بلوچستان میں انہوں نے کمانڈ سنبھالی قتل وغارت گری اغواء برائے تاوان دہشت گردی عروج کو چھورہی تھی افراتفری کاایک عالم تھا اور بلوچستان اپنے نازک ترین دور میں داخل ہوگیا تھا اور بے یقینی کی حالت کا سامنا تھا اور دوسری طرف بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار وزارت اعلی پر کوئی سردار کوئی نواب اور کوئی وارلارڈ براجمان نہیں ہورہا تھا بلکہ ایک عام طالب علم جو زمانہ طالب علمی میں فٹ پاتھ پر پھرتا تھا اور چائنکی ہوٹل میں چائے پیتا تھا بالکل عام طالب علم اور یہ طالب علم لیڈر بن گیااس کے بعد عبدالمالک بلوچ بلوچیت کے حو الے سے رومانویت کا شکار ہوگیا وہ بھی اپنے سابقہ لیڈروں کی طرح خوبصورت خواب کا شکار ہوگیا جس دور میں مالک بلوچ اس طرح سوچ رہا تھا وہ ایسے ہی حالات کا متقاضی تھا سوویت یونین اپنی جارحیت کے عروج کو چھور ہا تھا 27 دسمبر کی ایک یخ بستہ رات کو کابل کے ایئر پورٹ پر اپنی سرخ فوج اتار رہا تھا اور فوجی دستہ درہ سالانگ کے ذریعے دریائے آمو کو پار کرتے ہوئے ایک مسلم ملک کی سرزمین پر داخل ہورہا تھا اور کابل کے ایوان صدر کے آس پاس سرخ فوج شب وخون مارنے کے لئے داخل ہورہی تھی پرچمی پارٹی کا سربراہ حفیظ اللہ امین اپنے صدارتی محل میں موجود تھا اس نے اور اس کے محافظین نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن جان کی بازی ہار گیا اور قتل کردیا گیا ۔ افغانستان میں آپس کی چپقلش نے افغانستان کو ایک ایسی آگ میں جھونکا جو پھربجھ نہ سکی۔
قارئین محترم! سردار داؤد کے قتل کے بعد اور پھر نورمحمد ترہ کئی کے دور اقتدار میں پاکستان کے سیاسی حالات یکدم بدل گئے تھے چونکہ وہاں مارکسٹ قوتیں برسراقتدر آگئی تھیں اور پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں پر خطرات منڈلارہے تھے ایک طرف بھارت خوش تھا تو دوسری طرف افغانستان سرخ انقلاب تلے آگیا تھا پاکستان کا لیفٹ سیکولر لبرل قوم پرست طبقہ ایک خواب دیکھ رہا تھا کہ پاکستان پر سوویت یونین کی بالادستی قائم ہوجائے گی اور پاکستان کے چھوٹے صوبے اپنی آزادی کی منزل میں داخل ہوجائیں گے اور پاکستان بکھرے ہوئے خطرات میں گھر چکاتھا اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بالکل غیر یقینی کی حالت میں پاکستان داخل ہوچکا تھا۔

یہ وہ حالات تھے جن میں بلوچ نوجوان اور پشتون نوجوان افغانستان جاچکے تھے اور کچھ جارہے تھے افغانستان میں نواب خیر بخش خان مری‘جنرل شیروف (شیرمحمدمری) اپنے قبیلے کے سیکڑوں افراد کے ساتھ موجود تھے اجمل خٹک بھی رہنمائی کے لئے موجود تھے یہ وہ دور تھا جب عبدالمالک بلوچ افغانستان میں موجود تھے۔ وہ بھی بہت سے معاملات سے آگاہ ہے ان سب کو قریب سے دیکھا اس کے بعد کیا ہوا وہ ایک طویل تاریخ ہے اس کو صرف نظر کرتے ہوئے اپنے موضوع کی طرف لوٹتا ہوں۔ ایک طائرانہ نگاہ ماضی پر ڈالی ہے تاکہ اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں جب عبدالمالک بلوچ افغانستان چلے گئے تھے پھر تاریخ نے اس منظر کو بھی کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا جب سرخ فوج کا آخری جنرل دریائے آمو پار کررہا تھا اور جنرل کی آنکھوں میں آنسو تھے اور دوسری جانب اس کے استقبال کے لئے فوجی جنرل اور اس کے بیوی بچے کھڑے تھے۔
افغانستان کی مقدس سرزمین پر سرخ سامراج کو تاریخی شکست نے اس کو جغرافیہ کے نقشہ سے محو کردیا۔ اور سوویت یونین کو ماضی کے قبرستان میں دفن کردیا۔ اس کے بعد وہ سب لوٹنا شروع ہوگئے جو سنہرے خواب لئے افغانستان میں داخل ہوئے تھے نواب خیربخش خان مری لوٹ آئے شیرمحمد مری لوٹ آئے لیکن دونوں کے راستے جدا جدا ہوگئے تھے، عبدالمالک بھی لوٹ آئے اورخوابوں کی دنیا سے نکل کر تلخ حقیقتوں کی دنیا میں آگئے اور مسلح جدوجہد سے بلٹ کی بجائے بیلٹ کی طرف مراجعت کی اور سیاسی اونچ نیچ سے گزرتے ہوئے بالاآخر ایوان اقتدار میں داخل ہوگئے اور اس کے بعد 2013ء میں ان کے سر پر وزارت اعلیٰ کا تاج سجادیا گیا۔اس عمل میں فوج پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کی مکمل آشیرباد شامل تھی مسلم لیگ نے تاریخی فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ نوازشریف کا تھا اور اس کی پیش رفت اور استحکام کے لئے جنرل جنجوعہ پر نظر پڑی اور یہ انتہائی اہم فیصلہ تھا جنرل ناصر جنجوعہ کمال فراست اور وسیع النظری سے قوم پرست حکومت کے گاڈ فادربن گئے۔
یہ تاریخ کاایک دلچسپ فیصلہ تھا اور دور اندیشی پر مبنی تھا پشتونخواملی عوامی پارٹی بھی اس کھیل کا حصہ بن گئی نیشنل پارٹی پشتونخواملی عوامی پارٹی اور فوج ایک قالب دو جان بن گئے۔ قوم پرست ان نعروں کی گونج سے کسی اور طرف نکل گئے بلوچ پشتون سیاست کا ملاپ صوبہ پربہت سے پہلوؤں سے اثرانداز ہوا ہے اور دونوں قوموں میں قربت نے بہت خوشگوار اثرات مرتب کئے ہیں نفرت اور مہاجرین کی سیاست سے بالاتر ہوکر آگے بڑھے ہیں۔
قارئین محترم! ہم جنرل عامر ریاض کے ان تمام تجزیوں اور خیالات کا تفصیل سے جائزہ لیں گے تاکہ ہمیں بین الاقوامی حالات سے آگاہی حاصل ہو اور فوج جو کردار ادا کرنا چاہتی ہے اس کے مثبت پہلو سامنے آسکیں کاش ایسا سنہرا تعاون سردارعطاء اللہ مینگل‘ نواب بگٹی اور سردار اختر مینگل کو حاصل ہوتا یہ کتنا عجیب سا لگتا ہے کہ ان تینوں محب وطن قبائلی سربراہوں کومدت حکومت پوری نہیں کرنے دی گئی ان کو پوری کرنے دی جاتی تو بلوچستان کبھی جڑکٹے ہوئے شعلوں کی نذر نہ ہوتا اور نہ اکبرخان کو اپنی جان قربان کرناپڑتی اور اب میرے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا عبدالمالک بلوچ کی عوامی اور کامیاب حکومت کو چلتا کیا جائے گا اور اس قوم پرست قیادت کو بھی مدت پوری نہیں کرنے دی جائے گی عبدالمالک بلوچ کی حکومت کوئی آئیڈیل نہیں ہے اور نہ وہ شیر شاہ سوری ہے کہ جس نے پانچ سال میں برصغیر کا نقشہ ہی بدل دیا تھا لیکن جس دور میں حکومت ملی ہے وہ ایک پرآشوب اور سیاسی اور طلاطم کا دور تھا بہت مشکل حالات تھے سرشام بازاروں کا بند ہونا معمول بن گیاتھا خضدار سے لوگ علاقہ چھوڑ کر کوچ کررہے تھے سریاب سرشام ویران نظر آتا تھا کوئٹہ بدامنی کی لپیٹ میں تھا صوبائی دارالحکومت غیر محفوظ ہوگیا تھا عبدالمالک کی مخلوط حکومت نے بہت بہتر پیش رفت کی اس کو جاری رہنا چاہیے۔ (جاری ہے)

مزید :

کالم -