معاشرے کی ترقی کیسے ممکن ہے؟

معاشرے کی ترقی کیسے ممکن ہے؟
معاشرے کی ترقی کیسے ممکن ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دارومدار اس معاشرے کی اجتماعی سوچ، تخلیقی اور ذہنی صلاحیتوں پر ہوتا ہے۔ جسے انگریزی زبان میں ریسرچ(Research ) کہتے ہیں وہ بھی سوچ، مشاہدات اور تجربات کا مرکب ہوتی ہے۔

اور سوچ وہ ہوتی ہے جو جامد یا زنگ آلود نہ ہو، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں کو قبول کرنے کا نام سوچ ہے۔

کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے کھلی سوچ، تخلیقی صلاحیتیں اور علم کی فراوانی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور علم کی آخری سرحد تک آج تک کسی کو رسائی حاصل ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے علم کے دروازے زمانے کے ساتھ ساتھ ہی کھلتے ہیں اور علم کی کارگاہ سے ہمیشہ کن فیکون کی صدا اٹھتی ہے۔

علم کی کوئی سرحد ہے نہ ہی علم کسی درسگاہ یا نصاب کا مرہون منت ہے۔ علم مشرقی ہے نہ مغربی، علم دینی ہے نہ دنیاوی۔ علم کی ابتدا و انتہا اس پاک ذات سے ہے جس نے توازن کے ساتھ یہ ساری کائنات تخلیق فرمائی ہے اور اس کائنات کا رب بھی وہی ہے۔

علم کو تقسیم کرنے والوں سے میرا سوال یہ ہے کہ وہ کون سا علم تھا جو اللہ نے آدم علیہ السلام کو سکھایا جس کی بنا پر فرشتے بھی آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہوئے؟ اور وہ کون سا علم ہے جسے حاصل کرنے کے لیے حضور اکرمؐ نے یہ دعا فرمائی۔ رب زد نی علما؟ (اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما)۔


سو پاکستان کی ترقی میں پہلی رکاوٹ تو پھر سوچ کا فقدان اور علم کی کمی ہی قرار پائے گی۔ پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا ہے تب سے آج تک وطن عزیز میں تخلیقی سرگرمیاں بہت ہی محدود پیمانے پر ہوئی ہیں اور پاکستان کا نظام تعلیم اس قدر منتشر ہے کہ ہم کبھی ایک قوم ہی نہیں بن سکے۔

اب یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہو گا کہ انگلش میڈیم سکول میں پڑھنے والے بچے، مذہبی مدرسے سے فارغ التحصیل بچے اور بغیر عمارت کے کھلے آسمان تلے یا کسی درخت کے نیچے سرکاری سکول سے پڑھے ہوئے بچے میں کیا فرق ہے۔

اگر ان تینوں میں کوئی چیز مشترک ہے تو وہ یہ کہ تینوں کی تعلیم میں تربیت کا عنصر صفر ہوگا اور تینوں ہی تعلیم سے فارغ ہو کر صرف ایک سوچ رکھتے ہیں اور وہ ہے روزگار۔ کچھ اور سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوگی۔ مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے کسی ایک فرقے یا مسلک سے منسلک ہو کر باقی ساری دنیا سے الگ تھلگ ہو جاتے ہیں اور سوچنے کی تمام صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔

اس ساری بحث کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں یکسانیت کے لیے ایک قوم تیار کرنے کے لیے یکساں تعلیمی نظام کا ہونا از حد ضروری ہے۔


اس کے بعد پاکستان میں خواتین کے کردار سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کا کوئی ملک یا معاشرہ ایسا نہیں جہاں خواتین کو متحرک کیے بغیر ترقی ہو گئی ہو۔ اس کے لیے میں سب سے پہلے اسلامی ممالک کی مثال پیش کروں گا۔ ترکی ہمارا برادر ملک ہے وہاں ہر شعبے میں خواتین برابر کردار ادا کر رہی ہیں۔

بین الاضلاعی سڑکوں پر جا بجا عورتیں کھانے کے ریستورانوں پر یا تو کام کر رہی ہیں یا خود چلا رہی ہیں اسی طرح ہر شعبے میں خواتین برابر نظر آتی ہیں۔

انڈونیشیا، ملائیشیا اور دوسرے کئی ممالک میں بھی خواتین مختلف شعبوں میں بڑی کامیابی سے کام کر رہی ہیں اور ان میں اکثریت ایسی خواتین پر مشتمل ہے جو مذہبی روایات کی پابند ہیں۔ انکے لباس اور اطوار 100% اسلامی روایات کی عکاسی کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں بیشمار شعبے ایسے ہیں، جس میں سرے سے کوئی خاتون نظر نہیں آتی۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ عورت گھر سے باہر محفوظ نہیں ہے۔

گویا ایک ایسے ملک میں جو اسلام کے نام پر اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کے لئے معرض وجود میں آیا اس ملک میں ہماری بہن بیٹیوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے! اور تمام غیر اسلامی ممالک میں خواتین بے دھڑک ہر جگہ آ جا سکتی ہیں اور ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ بلا خوف و خطر کام بھی کر سکتی ہیں جی میں پاکستانی اور مسلمان مستورات کی ہی بات کر رہا ہوں جو بیشتر یورپی ممالک کے علاوہ امریکہ، کینڈا آسٹریلیا اور جاپان میں بہت کامیابی کے ساتھ مختلف شعبوں میں کام کرتی نظر آتی ہیں۔

اسکا مطلب یہ لیا جائے کہ مسلمان خواتین مسلم ممالک میں محفوظ نہیں اور غیر مسلم ممالک میں مکمل محفوظ ہیں؟ تو پھر یاد رکھنا چاہیے کہ ایک ہاتھ سے آدھا کام ہی ہو سکتا ہے۔ دوسرا ہاتھ شامل کیے بغیر آپ ترقی کا سفر کیسے شروع کر سکیں گے؟ ایسی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں عورتوں کو ہر کام سے الگ تھلگ رکھا گیا ہے کئی ایک شعبوں میں کئی خواتین بڑی کامیابی سے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اقوام متحدہ سے لیکر یورپ کی سفارتکاری تک خواتین کا کردار ہے۔

ناروے میں پچھلے 2 سال سے محترمہ رفعت مسعود صاحبہ پاکستان کی سفیر ہیں اور سب سے کامیاب سفیر ہیں ان کی موجودگی میں سفارتخانے سے پاکستانیوں کی شکایات میں کمی آئی ہے اور سب سے بڑھ کر ان کاجو کارنامہ یاد رکھا جائے گا وہ یہ کہ ان کی قیادت میں ناروے کے پاکستانیوں کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کا قومی دن 14 اگست اکٹھے منایا گیا جس میں پاکستان کی تمام تنظیموں نے اور تمام پاکستانیوں نے مل کر حصہ لیا۔ یہ بہت بڑا چیلنج تھا جو محترمہ رفعت مسعود صاحبہ نے قبول کیا اور کامیاب ہوئیں۔


ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی رجعت پسندی ہے۔ ہمارے مذہبی ٹھیکیدار ہمیشہ ایسے خدشات کا شکار رہتے ہیں کہ ترقی سے ہمارے مذہب کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ حالانکہ کہ ہمارا دین ہی وہ واحد دین ہے جس کو اندیشہ زوال نہیں اگر ہمارے دین کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے تو وہ صرف ہمارے اعمال اور کردار سے ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خوف سے سیاح پاکستان کا رخ نہیں کرتے ورنہ پاکستان بلا شعبہ سیاحتی ترتیب میں دنیا کے پہلے 10 ممالک میں جگہ پا سکتا ہے پاکستان میں سب سے پرانی ثقافت دریافت ہوئی ہیں۔ پاکستان موسموں کے لحاظ سے آئیڈیل ملک ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرتی حسن و جمال میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

پاکستان کو اللہ تعالی نے ساحل سمندر سے نوازا ہے پاکستان میں دنیا کے بہترین اور تازہ پھل وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں (یہ الگ بات ہے کہ پھلوں کو سنبھالنے کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں)


اب ذرا بات ہو جائے ترقی کی ریڑھ کی ہڈی کی۔جسے تحقیق کہتے ہیں(Research) اول تو پاکستان میں کوئی قابل ذکر یونیورسٹی ہی نہیں جہاں اس شعبے میں کام ہوتا ہے دوئم عام طالبعلم کا اس طرف رجحان ہی نہیں کیونکہ تحقیق دراصل ایک خشک اور غیر معروف شعبہ ہے اور اس میں بہت وقت لگتا ہے، جبکہ پاکستان میں لوگ جلد امیر ہونے اور شہرت حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے، لیکن کوئی اسلام آباد میں ایک بار اپنے زرعی تحقیقاتی سنٹر کا چکر لگا کر دیکھ لے۔ کہ پچھلے 20 سال میں کیا کچھ ہوا ہے اسی طرح سیاحت کے محکمہ کی بات کریں تو محکمہ موجود ہے تنخواہوں کی مد میں کروڑوں روپے جا رہے ہیں، لیکن کارکردگی صفر بلکہ ڈبل صفر ہے۔


ملکی ترقی میں انصاف کا کردار بھی بنیادی حثیت رکھتاہے اور پاکستان میں انصاف کے ساتھ جو انصاف ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اب اگر میں اپنا خیال پیش کروں تو مذہبی رجعت پسندی، انتہا پسندی اور دہشت گردی ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور بہت ساری رکاوٹوں کی ماں ہے۔ امن و امان کا مسلہ ہو یا سیاحوں کو ملک لانے کا، سرمایہ کاری ہو یا بیرونی تجارت ہر جگہ اور ہر معاملے میں مذہبی انتہا پسندی آڑے آتی ہے۔

اس وقت بھی مولویوں کا ایک گروپ وفاقی درالحکومت کی ناکہ بندی کیے ہوئے ہے۔ اس انتہا پسندی کو یہاں تک لانے میں ہمارے ادارے بھی ذمہ دار ہیں اور کچھ سیاستدانوں کا بھی ہاتھ ہے۔ کیونکہ وقتا فوقتا ہمارے خفیہ ادارے ان مذہبی گروہوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھار کئی سیاستدان بھی یہ کام کرتے ہیں بالخصوص دائیں بازو کے سیاستدان(اب تو دائیں اور بائیں میں تمیز بھی مشکل ہو گئی ہے کیوں کہ کل کے دائیں آج بائیں مڑ چکے ہیں۔

اور جو بایاں تھے وہ سیدھے ہو چکے ہیں) آج کل اسٹیبلشمنٹ کے بہت چرچے ہیں مجھ ایسا کم علم تو آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کہتے کس کو ہیں یہ کبھی سول ہوتی ہے تو کبھی فوجی، لیکن کسی کو نظر نہیں آتی بس اسکا ذکر اذکار ہی ہوتا ہے اور محسوس ایسے ہوتا ہے کہ یہی وہ چڑیا ہے جس کی چونچ میں ملک کی باگ ڈور ہے تو پھر میں بھی اس اسٹیبلشمنٹ نامی چڑیا سے عرض کرتا ہوں کہ آپ ضرب عضب اور ردالفساد جیسی مشکل ترین جنگوں کی بجائے بس اتنا کرم کر دیں کہ ان مذہبی گروہوں کو استعمال کرنا چھوڑ دیں تو شاید ان جنگوں کی نوبت ہی نہ آئے پاکستان الحمداللہ مسلمانوں کا ملک ہے لہذا ہمارے دین کو کوئی خطرہ ہے نہ کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے ہر کسی کو اپنے عقیدے کے ساتھ زندہ رہنے اور اپنے طریقے سے اللہ کی عبادت کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

اگر ملک میں ادارے مضبوط ہوں اور مذہبی حوالے سے کوئی مضبوط پالیسی اپنائی جائے اور ملک کا بیانیہ درست سمت میں رکھا جائے ملک میں مذہبی پالیسی ہو یا کوئی دوسری صرف متعلقہ ادارے ہی اس کو وضع کرنے کا اختیار رکھتے ہوں کسی فرد یا گروہ کو اسکا حق نہیں دیا جا سکتا ہے تمام مذہبی مدارس کو ایک نظام میں لایا جائے اور حکومتی سر پرستی میں چلایا جائے۔ تو ہم اس عفریت کو اژدھا بننے سے پہلے ہی قابو کر سکتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ سے میری درخواست ہے کہ وہ حق حکمرانی عوام کو دے دیں اور خود ریاستی تحفظ اور امن و امان کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی جماعتوں میں بھی جمہوریت کو پنپنے دیں اور جمہوریت کی روح بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنائیں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ اس کی حفاظت اور ترقی کی ذمہ داری بھی ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔

مزید :

کالم -