کیا جمہوریت تعمیر و ترقی میں رکاوٹ ہے؟ 

کیا جمہوریت تعمیر و ترقی میں رکاوٹ ہے؟ 
کیا جمہوریت تعمیر و ترقی میں رکاوٹ ہے؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آٰ ہمارے ایک دوست کہنے لگے کہ آپ تعمیر و ترقی پر کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے پوچھا اس بات سے انکی کیا مراد ہے؟ میں یورپ کے ایک بہت ہی خوشحال ملک کا شہری ہوں۔ جہاں تعمیر اور ترقی کا لیول بہت ایڈوانس ہے یا یوں کہیے تعمیر و ترقی ہوچکی ہے۔ بولے کہ آپ جس خطے میں پیدا ہوے ہیں وہاں کی تعمیر اور ترقی پر لکھیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایک مثال دیں، کوئی مسئلہ بتائیں تو میں پہلے اسے سمجھنے کی کوشش کروں گا۔ پھر شاید میں اس بارے میں کوئی راے دے سکوں۔ کہنے لگے کہ ایک لنک روڈ ہے جسے پختہ ہونا ہے۔یہ لنک روڈ برسوں سے پختہ نہیں ہوسکی۔ اسکی وجہ ڈھونڈیں۔ راقم نے چونکہ مادر وطن کی بیوروکریسی میں بھی خدمات انجام دی ہیں اس لیے بیوروکریسی کے اختیارات اور حدود و قیود کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ پھر بھی ہم نے چاہا کہ چونکہ بیوروکریسی پر ہی اکثر الزام آتا ہے کہ تعمیر اور ترقی نہیں ہورہی۔ پتہ تو کریں بیوروکریسی کے اصل اختیارات کیا ہیں؟جب روڈز کی تعمیر کی بات آئے، خاص کر روڈ کی پختگی کی بات آے تو پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ یا محکمہ لوکل گورنمنٹ کا نام پہلے آے گا۔ کم ازکم آزادی کی بیس کیمپ میں تو ایسا ہی ہے۔
ہم نے مذکورہ محکمے کے سب سے اعلی آفیسر سے معلومات لینا چاہیں۔ ہم نے کسی طرح سیکریٹری ورکس کا فون نمبر حاصل کیا۔ اور انہیں کال کی۔ اتفاق سے سیکریڑی ورکس سے ہماری برسوں پرانی شناسائی تھی۔ اور موصوف بہت اعلٰی صفات کے مالک انسان مانے جاتے ہیں۔ ہمیں یقین تھا کہ وہ ہماری درست رہنمائی کریں گے۔ موصوف نے ہمیں بتایا کہ پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے اختیارات میں نہیں آتا کہ نا پختہ روڈز کو پختہ کرنے کا فیصلہ کریں۔ یہ اختیار مقامی ایم۔ایل۔اے کو حاصل ہے یا صدر ریاست کو حاصل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر سال دس کلومیٹر ہر حلقے میں ناپختہ روڈز بجٹ میں شامل کی جاتی ہیں۔ لیکن اس کا فیصلہ ایم۔ایل۔اے صاحب کرتے ہیں یا پھر صدر صاحب کرسکتے ہیں۔ اور وزیراعظم صاحب تو کرہی سکتے ہیں۔
ہم نے اپنے دوست موصوف کو بتایا کہ یہ بات بیوروکریسی کے اختیار میں نہیں لگتی۔ ایم۔این ۔اے یا صدر صاحب کے اختیار میں آتی ہے۔ بولے ایم۔این ۔ اے صاحب بہت شریف انفس انسان ہیں لیکن اپوزیشن میں بیٹھتے ہیں۔ ذاتی طور پر بہت ہی امیر آدمی ہیں۔ اور انکے بڑ ے بھائی تو کھرب پتی ہیں ۔انکی دولت کا سکہ آزادی کے بیس کیمپ میں تو چلنا ہی ہے۔ مادر وطن پاکستان کی الیٹ کلاس بھی ان سے جھک کہ ملتی ہے۔ دولت کا اپنا دبدبہ ہوتا ہوگا۔ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہوگا جنھوں نے کبھی دلیل ، میرٹ اور انصاف کو دولت کے ساتھ ترازو میں تولنے کی کوشش کی ہو۔ 
موصوف دوست سے بات آگے بڑھی۔ وہ بتانے لگے کہ چونکہ مذکورہ نا پختہ روڈ پر جو آبادی ہے وہ ایم۔این۔اے صاحب کو شک ہے کہ انکے ووٹ بینک میں شامل نہیں ہے۔ اس لیے موصوف اس روڈ کی پختگی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ موصوف صرف ان روڈز کی پختگی میں دلچسپی رکھتے ہیں جہاں انکو یقین ہے کہ ان کا مستقل ووٹ بینک ہے۔
میں نے اپنے دوست سے عرض کی کہ آپ یہ بتائیں کہ میں اس بارے میں کیا لکھوں؟ جب آپ نے ساری بات بتادی ہے اور آپ ساری بات سمجھتے ہیں۔ تو مجھے اس بارے میں کیا لکھنا چاہیے؟ کیا میں یہ لکھوں کہ امیر آدمی کو ایم۔این ۔اے نہیں بننا چاہیے۔ یا لوگوں کو دولت سے مرعوب ہوکر ووٹ نہیں دینے چاہیے۔ کہنے لگے الیکشن میں تو پولنگ سٹیشن خریدے جاتے ہیں۔ پولنگ سٹیشنز کی بولی لگتی ہے۔ قصبے شہر سے ذرا دور جہاں سٹیٹ کی رٹ ذرا کمزور ہے۔ گاوں محلے میں ایک مقامی گینگسٹر ہوتا ہے۔ مقامی لوگ اس گینگسٹر سے کتراتے ہیں۔ ان گینگسٹرز کی اپنی ایک سی۔وی ہوتی ہے۔
ْقصہ مختصر الیکشن میں امیدوار امیر ہے تو وہ ان گینگسٹرز کو خرید لیتا ہے۔ اور یوں متعلقہ پولنگ سٹیشن کو بھی تقریباً خرید لیتا ہے۔ یہ خرید و فروخت کھرب پتی امیدوار کے لیے انتہائی آسان ہے۔لاکھ سے دو لاکھ کی رقم کے عوض مقامی گینگسٹر مذکورہ امیدوار کو یقین دلاتا ہے کہ اسے فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے سوچا اس خرید و فروخت کو کیا نام دیں؟ اگر اسی پراسیس سے منتخب شدہ نمائیندے آزادی کے بیس کیمپ میں قانون سازی کرتے ہیں۔ تو قانون سازی کے تناظر میں اس سارے سلسلے کا کوئی اور مناسب سا نام ہونا چاہیے۔ 
امریکن کرائم لٹریچر میں اس طرح کا ماحول ملتا ہے۔ یہ سارا فکشن ہے یا کچھ سچ بھی ہے یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ مثلاً شہر کے مئیر کے الیکشن میں مافیاز ، ڈرگ کارٹیل اپنا ہاتھ دکھا جاتے ہیں۔ سٹی کونسل کے الیکشن میں ڈرگ لاڈز اپنی مرضی کے امیدوار جتوالیتے ہیں۔ میں نے دوست موصوف سے پوچھا کہ صدر صاحب اور وزیراعظم صاحب کے نوٹس میں لاکر دیکھیں۔ بولے وہ بھی تحفظات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ حلقے کے ایم۔این۔اے صاحب اپوزیشن میں بیٹھتے ہیں ۔ کیا پتہ اسمبلی میں اعتراض اٹھائیں کہ صدر صاحب یا وزیراعظم صاحب میرے حلقے میں مداخلت کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے شواہد بھی ہیں کہ حلقے کے موجودہ یا سابقہ ایم۔این ۔اے صاحبان کو اگر اس بات کا علم ہوجائے کہ حلقے میں کوئی تعمیری کام کوئی محکمہ اپنے طور پر کرنے کا ارادہ کررہا ہے تو یہ صاحب اعتراض کرنے لگتے ہیں کہ ان سے کنسلٹ کیے بغیر کوئی محکمہ تعمیری کام کاج کی جرات بھی نہ کرے۔ ہم نے پوچھا وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کیا وہ تعمیر و ترقی نہیں چاہتے؟ انہیں تعمیر دو ترقی سے خوشی نہیں ہوتی۔ بولے ایسی تعمیر و ترقی جس سے انکا ووٹ بینک تقسیم ہو نے کا اندیشہ ہو اور اگلے الیکشن میں انکی کامیابی کے امکانات کمزور پڑھنے کا اندیشہ ہو۔انہیں قبول نہیں ہے۔ انہیں صرف وہ تعمیر و ترقی چاہیے جو انکے ووٹ بینک کو تقویت دے۔ چنانچہ ہر اس تعمیر ی کام کو سبوتاژ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے جو اگلے الیکشن میں انکی کامیابی کو یقینی بنانے کی لسٹ میں نہ آے۔
قصہ مختصر مذکورہ روڈ پختہ نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ روڈ پر بسنے والی آبادی بیس کیمپ کی جمہوریت کے فارمیٹ کو نہیں سمجھ سکی ہے۔ ہم نے اپنے دوست موصوف سے عرض کیا کہ مقامی آبادی کو آزادی کے بیس کیمپ کی جمہوریت کا فارمیٹ سمجھائیں۔
اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔

۔

یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

مزید :

بلاگ -