مذاکرات کا فائدہ کس کو ہوگا؟ 

  مذاکرات کا فائدہ کس کو ہوگا؟ 
  مذاکرات کا فائدہ کس کو ہوگا؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مذاکرات کا فائدہ کس کو ہوگا؟ عمران خان کو، حکومت کو، اسٹیبلشمنٹ کو، نوا زشریف کو، بلاول بھٹو کو، مریم نواز کو، بشریٰ بی بی کو، عمران خان کی بہنوں کو، جمائما خان کو، یا پی ٹی آئی کو؟ اگر پی ٹی آئی کی شرائط کو دیکھا جائے تو اس کا مقصد پی ٹی آئی کے اسیر کارکنوں کو عمران خان سمیت رہائی دلوانا ہے، اس کے علاوہ خود پر سے 9 مئی کے الزام کو دھونا ہے۔

دوسری جانب حکومت کو دیکھیں تو وہ سیاسی استحکام کی متلاشی ہے تاکہ معاشی استحکام کی راہ استوار ہو سکے۔اسٹیبلشمنٹ کو دیکھیں تو وہ اپنی ساکھ کی بحالی پر فوکس کئے ہوئے ہے۔نوا زشریف اپنے خلاف بے جا پراپیگنڈہ کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ چاہتے ہیں۔مریم نواز بحیثیت خاتون وزیر اعلیٰ کے مشرقی روایات کے مطابق اپنے احترام کی متلاشی ہیں۔ البتہ اگر مشکل ہے تو بلاول بھٹو کے لئے کیونکہ وہ جو کچھ چاہتے ہیں اگر عمران خان نے اپنے پتے درست انداز سے کھیلے تو بلاول کے لئے اپنے آپ کو نون لیگ کی اپوزیشن ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا لیکن عمران خان سے ایسی عقل و دانش کی توقع کم ہی ہے کیونکہ وہ ایک فاسٹ باؤلر کی طرح بس ایک ہی دھن، ایک ہی سمت اور ایک ہی رفتار سے دوڑنے کو ترجیح دیں گے جو سیاست کے میدان میں کم ہی کارگر ثابت ہوتا ہے۔ 

یہ بات طے ہے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے مذاکرات سے بہت سوں کے بند راستے کھل سکتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ فریقین کس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ کسی بھی ایک فریق کی ہلکی سی چوک بھی پورے معاملے کو پھر سے بگاڑ کا شکار کر سکتی ہے۔ اس بات کا امکان اس لئے بھی زیادہ ہے حکومت عمران خان کو ضرورجتائے گی کہ اسے بالآخر انہی کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے ہیں جن کو وہ چور ڈاکو گردانا کرتے تھے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے لئے اگرچہ یہ ایک بہت بڑی سبکی ہے کہ اس کی دھونس دھمکیوں کے سامنے اسٹیبلشمنٹ نے کمزوری دکھائی اور نہ حکومت نے! آج نہیں تو کل پی ٹی آئی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور مذاکرات کے نتیجے میں اسیران کی رہائی تو ہو جائے گی لیکن خود پی ٹی آئی کی سیاسی ساکھ کو جو دھچکا پہنچے گا، اس سے جانبر ہونا آسان نہ ہوگا۔ یہی وہ مرحلہ ہوگا جب پی ٹی آئی اور بلاول بھٹو کا امتحان شروع ہو گا کہ پی ٹی آئی اپنی سیاسی ساکھ بچانے اور بلاول بھٹو بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو چونکہ اس کے پاس زمام اختیار و اقتدار ہے اس لئے اس کو اپنی ساکھ بنانے کا موقع دستیاب رہے گا۔ 

عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ باہم اعلانیہ گٹھ جوڑ کرلیں اور ایک مضبوط حزب اختلاف کے طور پر ابھر کر سامنے آجائیں۔ اس دوران اگر عمران خان ملک بدری پر آمادہ ہو گئے تو بلاول بھٹو کے لئے منحرف ووٹروں سپورٹروں کو دوبارہ سے پیپلز پارٹی کے دائرے میں لانا آسان ہو جائے گا۔ تاہم اگر عمران خان اپنی ضد اور انا پرڈٹے رہے اور ان کے مشیران نے انہیں میدان خالی نہ چھوڑنے پر آمادہ کرلیا تو یہ بات کھل کر عیاں ہو جائے گی کہ پاکستانی سیاست میں قیادت کا بحران حزب اقتدار میں نہیں حزب اختلاف میں ہے۔ ایسا پہلی بار ہو نے جا رہا ہے کہ حکومت مخالف حلقے دو لیڈروں کے درمیان لڑھکتے پھریں گے، وہ ان دونوں میں سے ایک کو دل دیئے بیٹھے ہوں گے جبکہ دوسرا ان کے لئے جان دینے کو تیار نظر آئے گا۔ اس صورت حال میں نواز لیگ مخالف حلقوں کی بے بسی دیکھنے کے لائق ہوگی۔ 

مجھے کہنے دیجئے کہ اس وقت ملک میں اصل بحران اپوزیشن کا ہے کیونکہ ایک نیام میں پڑی دو تلواریں باہم ایک دوسرے کی دھار کر کاٹ رہی ہیں۔ آصف زرداری کا خیال تھا کہ پنجاب میں عمران خان نون لیگ کا ووٹ کاٹیں گے اور پیپلز پارٹی کا ووٹ اپنی جگہ قائم رہے گا۔ اس سے قبل جنرل مشرف نے سمجھا تھا کہ چودھری پرویز الٰہی کو مضبوط کرکے پنجاب میں نون لیگ کا ووٹ کاٹ لیا جائے گا مگر پنجاب کے محاذ پر آصف زرداری اور جنرل مشرف دونوں ہی ناکام ثابت ہوئے ہیں اور نواز شریف سیاست کے میدان میں چلنے والے گزشتہ دس پندرہ برسوں میں چلنے والے جھکڑوں، آندھیوں اور طوفانوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنا اور اپنی پارٹی کا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کامیابی پیپلز پارٹی کو سندھ میں بھی حاصل رہی ہے اور جنرل ضیاء الحق کی ایم کیو ایم پر تمام تر نوازشات کے باوجود پیپلز پارٹی کا گڑھ اپنی جگہ قائم رہا ہے کیونکہ وہاں پارٹی کی جڑیں عوام میں گہری ہیں۔ اگر یہ بات سندھ کی حد تک پیپلز پارٹی کے لئے درست ہے تو پنجاب کی حد تک نون لیگ کے لئے کیوں درست نہیں مانی جا سکتی ہے؟

لہٰذاموجودہ صورت حال سے ایک نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مذاکرات کا فائدہ نون لیگ اور نون لیگ سے بڑھ کر نواز شریف کو ہوگا اور عین ممکن ہے کہ رانا ثناء اللہ کی نوازشریف کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم پاکستان بنانے کی خواہش پوری ہو جائے کیونکہ اس سلسلے میں تمام امکانات اپنی اپنی جگہ روشن ہیں۔ یوں بھی جب تک نواز شریف کھل کر سامنے نہیں آتے تب تک اپوزیشن کے محاذ پر عمران خان کی دال گلے گی نہ بلاول بھٹو کی کیونکہ وزیر اعظم شہباز شریف کی مخالفت ایسے ہی ہے جیسے ہومیوپیتھک دوا کھا کر فوری نتائج کی توقع رکھی جائے۔یوں بھی شہباز شریف واحد سیاستدان ہیں جن کی فوج سے لڑائی ہے نہ عمران خان سے، بلاول بھٹو سے جنگ ہے نہ مولانا فضل الرحمٰن سے اور نوازشریف سے گلہ نہ مریم نواز سے! 

مزید :

رائے -کالم -