روزنامہ پاکستان کے انہی صفحات پر ہمارا ایک کالم 4جنوری 2017ء کو شائع ہوا تھا جس کا عنوان فتنۂ جمہوریت تھا۔ اس کالم کے چھپنے کے بعد ہمیں ٹیلی فون بھی مسلسل آئے اور چند خطوط بھی ملے۔ جن میں قارئین نے اپنی آراء کا کھلے قلم اور کھلے ذہن سے اظہار فرمایا۔کھلے ذہن سے قلم کے ذریعہ کیا ہوا اظہارخیال یقیناًحقیقت پر مبنی ہوتا ہے جس میں جھوٹ کی آمیزش نہیں ہوتی۔ ہمیں خوشی ہے کہ قارئین نے اپنے دل کی کہی۔ اکثر نے کالم کے بارے میں خوشی کا اظہار کیا اور لکھا’’میں نے جانا یہ بھی میرے دل میں تھا‘‘ ہمارا وہ لکھا ہوا کالم در اصل سیالکوٹ کے معروف قلم کار حکیم محمود احمد ظفر کی کتاب ’’فتنۂ جمہوریت‘‘پر تبصرہ تھا۔جگہ کی کم مائیگی کی وجہ سے ہم صرف دو تین خطوط ہی کو تحریر کا حصہ بنا رہے ہیں جس سے قارئین کو اندازہ ہو گا کہ پاکستان کی جمہوریت سے لوگ کس درجہ متنفر ہیں اور اس نظام کو اپنے حق میں کتنا غیر مفید خیال کرتے ہیں۔او راگر جمہوریت میں عوام کی رائے ہی معیار ہے تو بھی ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا۔ اور ہمیں ایسا نظام تلاش کرنا ہو گا جو ہمارے مسائل کا حل دے سکے۔کیونکہ موجودہ رائج جمہوریت سے مسائل بڑھ رہے ہیں کم نہیں ہو رہے۔
ہمارے کالم کے جواب میں ایک کالم روزنامہ پاکستان ہی کے صفحات پر 12 جنوری کے شمارے میں شائع ہوا جس کا عنوان’’جمہوریت پر تنقید کا جائزہ‘‘ ہے۔جو معروف کالم نگار ڈاکٹر نعمان نیر کلاچوی کے قلم سے ہے۔ جوڈھیر سارے کالموں میں سے صرف ایک ہے جو موجودہ جمہوریت کے حق میں لکھا گیاہے۔اسی لیے ہم اس کو اولیت دے رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:’’ہمارے ہاں جمہوریت پر سب سے مضبوط اور منطقی اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جمہوریت میں ایک صاحب علم اور ایک ان پڑھ کی رائے برابر ہوتی ہے۔ جمہوریت میں فرد گنے جاتے ہیں۔ اخلاقی اقدا ر یا ذہانت کو معیار نہیں بنایا جاتا۔ ان دونوں سوالات کا جوابات دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ پہلے سوال کاجواب یہ ہے کہ جس ملک میں لٹریسی ریٹ سو فی صد نہ ہو وہاں جمہوریت کا کیا کام۔‘‘
ایک دوسرے صاحب کا لکھنا ہے کہ: پاکستان کو معرض وجود میں آئے تقریباً پون صدی گزرنے کو ہے۔ ہم اگر اس طویل عرصہ میں تعلیم کو سو فی صد سطح تک نہیں لا سکے تو سمجھ لیجئے کہ اگلے سو برس میں بھی ہم یہ کام نہ کر سکیں گے۔ہمارے ہاں وکلاء انتہائی پڑھے لکھے سمجھے جاتے ہیں اوروہ خود بھی اس بات کے مدعی ہیں کہ ہم بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ہر سال بار کونسلوں کے انتخابات بھی پابندی سے ہوتے ہیں لیکن بزعم خود پڑھا لکھا طبقہ بھی ووٹ دیتے وقت جٹ،آ رائیں، رنگڑ کی تقسیم میں بٹا ہوتا ہے۔ اگر یہ لوگ بھی بزعم خود پڑھا لکھا ہونے کے باوجود ذات برادری کے حصار سے نہیں نکل سکے تو پاکستان کے دیگر لوگ ان جکڑ بندیوں سے کب آزاد ہو سکتے ہیں؟
تعلیم کا خاصہ تو یہ ہے کہ وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرتی ہے۔ اور انسانوں کے اندرعجزوعاجزی پیدا کرتی ہے۔ انسان میں جتنی تعلیم زیادہ ہو گی اس کے اندراپنی کم علمی اور کم مائیگی کا احساس مزیدسے مزید پیدا ہو گا۔ ورنہ انسان خود ہی اپنی تعلیم کے زعم میں مبتلا ہو جائے۔او رخود کو پڑھا لکھا سمجھنے لگے۔ یہ کبر ہے جو ہمارے دور میں قانون دان طبقے میں بہت زیادہ شدید ہے۔ کنگن پور ضلع قصور سے قیصر صاحب نے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیا۔ فرمانے لگے کہ آپ نے فتنۂ جمہوریت نامی کتاب پر تبصرہ لکھا ہے۔ اسے پڑھ کر ایسا لگا کہ یہ ہمارے دل کی آواز ہے۔ نظام جمہوریت نے ہمیں کیا دیا ہے ماسوائے باہم لڑائی جھگڑا، باہم عداوت دشمنی۔ پاکستان کی کم و بیش ستر سالہ تاریخ میں کتنے ہی الیکشن ہوئے۔ ہر الیکشن میں لوگوں نے امیدلگائی اب ہمارے حالات بدلیں گے۔ امن و امان قائم ہوگا۔لیکن ہر الیکشن کے بعد خبریں چھپیں ۔ اتنے لوگ وہاں قتل ہو گئے۔ اتنے زخمی ہوئے۔ اتنے لوگوں کو گولیاں لگیں اور اتنی عورتوں کا سہاگ اجڑ گیا۔ لیکن اتنی جانیں گنوانے کے بعد نئی جانوں میں نئی دشمنیاں پیدا ہو گئیں۔ کسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اس پر بھی ہمارے جمہوریت کے دلدادہ خوشی کے گیت ہی گاتے رہے۔بعض مقدمات اب تک کچہریوں میں چل رہے ہیں۔ بھلا ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ جو ہر الیکشن کے بعد خون کی پیاسی ہوتی ہے۔ اور سینکڑوں لوگوں کا خون پینے کے باوجود اس کا پیٹ سیراب نہیں ہوتا۔ ہم تو ایسی جمہوریت سے ویسے ہی بھلے۔
بہاول پور سے نور حسن نے لکھا: ہم بہاول پور کے لوگ ہیں۔ یہاں عباسی خاندان کی حکومت تھی۔ ہمارے شہروں اور دیہات میں امن تھا۔ چوری چکار ی کی خبر سال دوسال میں ایک آدھ دفعہ ہی سنی جاتی تھی۔ بادشاہ عوام سے محبت کرتے تھے۔ انصاف ملتا تھا۔ کسی کو کسی سے کوئی پرخاش نہ تھی۔ لوگ چین کی نیند سوتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد یہاں جمہوریت نے ڈیرے ڈال دئیے۔ ہمیں خوش خبریاں سنائی گئیں کہ اب ہر ایک کو بولنے کا حق ملے گا۔ ہر شخص آزاد ہے۔اس وقت بہاول پور تعلیمی اداروں کا مرکز تھا۔بہاول پور اور آس پاس کے علاقوں میں بھی بہت سے سکول قائم تھے۔ ہر ایک کو پڑھنے کے مواقع میسر تھے۔ کوئی داخلہ نہ ملنے کی شکایت نہ کرتا تھا۔بہاول پور میں بادشاہ نے ایک لائبریری قائم کر رکھی تھی۔ لوگ مطالعے کے شوقین تھے۔ سر شام لائبریری کا رخ کرتے خوب مطالعہ کی فضا قائم تھی۔لائبریری میں1864ء سے لے کر تشکیل پاکستان تک کے اخبارات و رسائل اب تک موجود ہیں ترتیب سے رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان بن جانے کے بعد اب وہ کیفیت نہیں اب رسائل و جرائد گرد آلود ہیں۔ بیشتر بے ترتیب ہیں۔اب لوگوں کو پیٹ بھرکر روٹی کی فکر ہی جان نہیں چھوڑتی۔ یہ سب جمہوری پھل ہیں۔
ہم نے سنا ہے پاکستان بنا تو پاکستان کے خزانے میں ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی پیسے نہ تھے۔ بہاول پور کے امیر نے قائد اعظم سے کہاپریشانی کی بات نہیں، میں اپنے خزانے سے تنخواہیں ادا کروں گا۔ سنا ہے طویل عرصے تک بہاول پور کے امیر نے سارے پاکستان کا خرچ برداشت کیا۔ سیاست کاروں نے جمہوریت کا تحفہ دیا۔ اب وہ کیفیت نہیں ہے۔ سیاست کاروں نے ریاست کو لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ہم نے موصولہ خطوط اس کالم میں پیش کر دئیے ہیں۔ لوگوں کے دل کی لوگوں کے دل تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ فیصلہ کی ترازو قارئین کے ہاتھ میں ہے۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ فیصلہ نتائج پر ہوتا ہے۔ اگر جمہوری ثمرات وہی ہیں جو لوگوں نے بیان کیے تو پھر ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کہ کوئی بہتر راستہ ملے۔