پوائنٹ آف نو ریٹرن

   پوائنٹ آف نو ریٹرن
   پوائنٹ آف نو ریٹرن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آٹوکار انڈسٹری میں ہنری فورڈ کانام ایک معتبر اور روشن خیال شخصیت کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے انہیں اس صنعت کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہنری فورڈ ایک پکے سچے عیسائی تھے۔ کارکنان کی فلاح و بہبود کا بھی خیال رکھتے تھے۔ انہوں نے کاروبار کے دوران یہودیوں کی چیرہ دستیوں اور مکاریوں کا مشاہدہ کیا، انہوں نے یہودیوں کا عیسائیت پر حملہ آور ہونابھی دیکھا، امریکی معاشرے سے عیسائیت کی چھاپ مٹتی ہوئی دیکھی اور ایسی تمام کارروائیوں کے پس پردہ یہودی نظر آئے تو انہوں نے ایک سچے کرسچن کے طور پر امریکی عوام کو یہودیوں کی مکاریوں کے خلاف، باخبر اور باشعور بنانے کے لئے عملی کاوشوں کا آغاز کیا۔ایک اخبار خریدا، مشاق اور ماہر صحافی شامل کئے ایک خطیر رقم مختص کی اور تحقیقاتی صحافت کا آغاز کیا اس مشن کے دوران ان پر بہت سے حقائق آشکار ہوئے انہوں نے ایسی معلومات کو تاریخ کا حصہ بنانے کے لئے اسے کتابی شکل میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ فنڈ مختص کئے اور اس طرح ”بین الاقوامی یہودی: ایک اہم مسئلہ“ چار جلدوں پر مشتمل تاریخی دستاویز معرض وجود میں آئی۔ تقریبا ایک صدی گزرنے کے باوجود اس کتاب میں درج حقائق کا آج بھی یہودیوں پر اطلاق ہوتا ہے اس وقت جو حقائق کسی نہ کسی طرح ملفوف تھے لیکن  آج یہودی سازش روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے۔ صہیونیت کی شکل میں نہ صرف مشرق وسطی بلکہ اقوام مغرب پر اپنا منحوس  سایہ ڈال چکی ہے۔ تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر کے ذریعے، گریٹر اسرائیل کے قیام سے پوری دنیا پر یہودی غلبے کا خواب،حقیقت کے قریب آتا نظر آ رہا ہے۔ بہرحال بات ہو رہی تھی ہنری فورڈ کی۔ اس زمانے میں فورڈ موٹرکمپنی اعلیٰ ترین کمپنی تھی ایک غیر ملکی وفد نے کمپنی کے دورے کے دوران ہنری فورڈ سے پوچھا کہ یہاں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا فرد کون ہے، ہنری فورڈ وفد کو ایک کمرے میں لے گیا وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا اور کچھ بھی نہیں کررہا تھا۔ وفد کے اراکین نے پوچھا۔ یہ شخض کام کیا کرتا ہے؟فورڈ نے کہا یہ کچھ بھی نہیں کرتا، یہ صرف سوچ و بچار کرتا رہتا ہے، یہ غوروفکر کرتا رہتا ہے، یہ آئیڈیاز سوچتا ہے، کمپنی میں جدت لانے، پروڈکشن کے عمل کو بہتر سے بہتر بنانے وغیرہ وغیرہ جیسے امور بارے غور و فکر کرتا ہے اسے اسی کام کے لئے رکھا ہے اور سب سے زیادہ معاوضہ دیا جاتا ہے، ہنری فورڈ کی ایسی ہی سوچ نے اسے بانیانِ صنعت میں شامل کیا اور اس کی فورڈ کمپنی اعلیٰ مقام حاصل کرپائی تھی۔ہم بیانات کی حد تک بہت طاق ہیں۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے عزائم رکھتے ہیں لیکن ٹارگٹس حاصل کرنے کے لئے سوچ و بچار، منصوبہ سازی، پائیدار حکمت عملی کے حوالے سے بہت زیادہ کاوشیں نہیں کرتے۔

ہمارے وزیراعظم محمد شہبازشریف نے برآمدات بڑھانے سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کہا ہے کہ برآمدی صنعتوں کی ترقی کے لئے ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ کے گورننس نظام اور ٹیرف سسٹم میں پائیدار اور ضروری اصلاحات کی جائیں۔ ٹیرف میں کمی اور ٹیرف سسٹم کو آسان بنایا جائے، سالانہ برآمدات کو 60ارب ڈالر تک لے جایا جائے گا۔ یہ کام پانچ سال کے اندر اندر کیا جائے گا، باتیں  بہت اچھی ہیں، خواہشات بڑی محترم ہیں، ہم گزرے 77سالوں میں ایسی ہی خواہشات کے اسیر رہے ہیں۔ ہمارا ہمسایہ بھارت اسی دوران تعمیر و ترقی کی منازل طے کرتا ہوا اقوام عالم میں بہت بلند مقام تک پہنچ گیا ہے۔ اس کی برآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے کئی گنا زیادہ ہیں، جبکہ ہم ابھی 60ارب ڈالر کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے سوچ رہے  ہیں۔ ہمارے ہاں اگر سنجیدہ فکر رکھنے اور سوچنے والے ہوتے تو ہم تعمیر و ترقی کرتے ہوئے آج کسی اچھے مقام پر فائز ہوتے، ہمارے ہاں یہ کام، یعنی سوچنے کا کام نااہل اور نالائق بیوروکریسی کے سپرد ہے، ان کی صلاحیت، سوچ اور کارکردگی کاشاخسانہ ہے کہ آج ہمارے ہاں کوئی بھی سرکاری محکمہ اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہے۔ ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ڈلیوری میکانزم فیل ہو چکا ہے۔ ہمارے اہلکار بشمول افسر و عملہ صرف اور صرف اپنی مراعات سے لطف اندوز ہونے میں مگن ہے، انہیں ڈلیوری سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سوچ کے اعتبار سے وہ ”سٹیٹس کو“ یعنی ”جیسا ہے، جہاں ہے“ کے قائل ہیں تبدیلی ان کے پیش نظر ہی نہیں ہے ان کی نظر میں اپنے آقاؤں کی خوشنودی بھی منزل مقصود ہے، ان کے آقا کبھی سیاستدان ہوتے ہیں اور کبھی فوجی جرنیل و افسر۔ ملک میں جمہوریت ہو یا مارشل لاء، وہ ہمیشہ سہولت میں رہتے ہیں کیونکہ ان کا کام صرف انا کی خوشنودی ہے وہ اس کام میں یدطولیٰ رکھتے ہیں انہیں تو بیک وقت اپنے دونوں آقاؤں کو بھی خوش رکھنے کا فن آتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک عرصے سے ہائیبرڈ نظام چل رہا اس لئے بیورو کریسی کو بیک وقت اپنے دونوں آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنا ضروری ہو گیا  ہے۔ عالمی ساہوکاروں کے نمائندے بھی ہمارے نظام کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ پہلے صرف وزیر خزانہ ہوتے تھے لیکن اب تو وزیر خزانہ کے ساتھ ساتھ گورنر سٹیٹ بینک، ایف بی آر اور دیگر عہدوں پر بھی قرض دینے والے اداروں کے نمائندے فائز ہوتے ہیں اس لئے بیورو کریسی کو ان لوگوں کو بھی خوش رکھنا ہوتا ہے۔ بیورو کریسی یہ سارے کام بخوبی سرانجام دیتی ہے، دے رہی ہے اور دیتی رہے گی لیکن معاملات کو بہتر بنانے، ملک کو آگے بڑھانے، نظام کو موثر بنانے کے بارے میں سوچنا، ان کے بس میں نہیں ہے، اس لئے معاملات میں پائیدار بہتری کی گنجائش نظر نہیں آ رہی۔ ہم 60ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف شاید ہی حاصل کر پائیں۔ ویسے ہمارے موجودہ حکمران،جنہوں نے یہ ہدف مقرر کیا ہے، ان کی مدتِ حکمرانی 4سال رہ گئی ہے اگر معاملات جوں کے توں چلتے رہیں تو پھر بھی وہ مزید چار سال تک ہی حکومت میں رہیں گے اس لئے طے کردہ ہدف پر پہرہ دینا ممکن نظر نہیں آتا۔ حالت یہ ہے کہ قائم شدہ کارخانے بند ہو رہے ہیں، کاروبار گھٹ رہے ہیں، لوکل سرمایہ کار مایوسی کا شکار ہیں، شرح سود کم ہونے کے باوجود غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ مہنگائی کی شرح کم ہونے کے باوجود عام آدمی ریلیف محسوس نہیں کر پا رہا، ملکی عمومی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے، مایوسی ہے، ناامیدی ہے، کوئی بھی حال سے مطمئن نہیں ہے اور مستبقل کے بارے میں ناامید ہے۔ جاری صورت حال ختم کرنے کے لئے سنجیدہ فکری کی ضرورت ہے وگرنہ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -