کیا اسمبلی تحلیل کرنے کے لئے صدر مملکت کی منظوری ضروری ہے

کیا اسمبلی تحلیل کرنے کے لئے صدر مملکت کی منظوری ضروری ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:سعید چودھری

پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی پر مختلف سوالات تو اٹھ ہی رہے تھے،اب وفاق اور پنجاب میں تبدیلی کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں،حکومت کے اتحادی آنکھیں دکھا رہے ہیں،ان ہاؤس تبدیلی کاتذکرہ ہے،پنجاب میں پی ٹی آئی کا فاروڈ بلاک بن گیاہے،سیاسی پنڈت عمران خان کی حکومت کے جانے کی تاریخیں دے رہے ہیں،واقفان حال میں سے ہونے کے دعویداربعض صحافی ٹی وی چینلز پریہ کہتے سنے گئے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو اپنی حکومت کے جانے کا یقین ہوگیا تو وہ خود ہی قومی اسمبلی توڑ دیں گے،اسی موضوع کے حوالے سے ایک اینکر پرسن، جن کا قانون کے شعبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے،یہ کہتے بھی سنے گئے ہیں کہ اگر وزیراعظم اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دیں گے تو صدر اسے منظور نہیں کریں گے،کیا اسمبلی کی تحلیل کے لئے صدر مملکت کی منظوری ضروری ہے؟کیا وزیراعظم کو اسمبلی کی تحلیل سے روکنے کا کوئی آئینی راستہ موجود ہے؟کیا18ویں آئینی ترمیم کے بعدبھی صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے؟
آئین کے تحت وزیراعظم کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی وقت کوئی وجہ بتائے بغیر قومی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس صدر مملکت کو بھیج سکتے ہیں، وزیراعظم کی ایڈوائس کے بعد کیا ہوگااس کی وضاحت دستور کے آرٹیکل58میں کردی گئی ہے، وزیراعظم کی ایڈوائس کے بعد صدر مملکت قومی اسمبلی توڑنے کا حکم نامہ جاری کریں گے،اگر صدر مملکت 48گھنٹے کے اندر اندر ایسا حکم نامہ جاری نہیں کرتے تو 48گھنٹوں کے اختتام پر اسمبلی تحلیل ہوجائے گی اور اس بابت کسی صدارتی فرمان کی ضرورت نہیں ہوگی،یہ کہنا کہ اسمبلی توڑنے کے معاملہ پر وزیراعظم کی راہ میں صدر مملکت رکاوٹ بن سکتے ہیں تو یہ درست نہیں ہے،وزیراعظم کی ایڈوائس کے 48گھنٹے کے بعد اسمبلی خود بخود تحلیل متصور ہوگی،آئینی طور پر صدر پاکستان کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ وزیراعظم کی اسمبلی تحلیل کرنے کی بابت ایڈوائس کوروک سکیں یااس پر کوئی نوٹ دے کر اسے واپس کرسکیں۔
اب آتے ہیں دوسرے سوال کی طرف کہ اگر وزیراعظم اسمبلی توڑنے کا مصمم ارادہ کئے ہوئے ہوں تو انہیں اس اقدام سے کیسے روکا جاسکتاہے؟آئین کے آڑٹیکل58میں ہی اس بابت وضاحتی آرٹیکل شامل کیا گیاہے جس کے مطابق وزیراعظم جس کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد کے لئے نوٹس دیا گیاہو وہ اسمبلی تحلیل نہیں کرسکتا،دوسرے لفظوں میں اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہوجائے تو وہ اسمبلی توڑنے کا اختیار کھو دیتاہے،اگر وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کا نوٹس دے دیا جائے تو وہ اسمبلی برخاست نہیں کرسکیں گے،وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی کی کل نشستوں میں سے کم ازکم 20فیصد ارکان عدم اعتماد کی تحریک پیش کرسکتے ہیں،اس وقت قومی اسمبلی کی کل نشستیں 342ہیں،آئین کے آرٹیکل 95کے تحت 69ارکان اسمبلی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرسکتے ہیں۔اس وقت قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی 156جبکہ اس کی اتحادی جماعتوں کے ارکان کی تعداد21ہے،ان کے علاوہ وزیراعظم کو 7دیگر ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف میں شامل سیاسی جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد158ہے،یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ آئین کے آرٹیکل 58(2) بی ختم ہوچکاہے،اس آرٹیکل کے تحت صدر کو بھی اسمبلی توڑنے کااختیارحاصل تھا،18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل58(2)بی کے خاتمہ کے بعد اب بھی صدر کے پاس خاص حالات میں اسمبلی توڑنے کا صوابدیدی اختیار موجود ہے، وہ خاص حالات کیاہیں جن میں صدر اپنا یہ اختیار استعمال کرسکتے ہیں،آئین کے آرٹیکل58(1) کی وضاحتی شق 2میں کہاگیاہے کہ اگر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوجاتی ہے اور اس کے بعد قومی اسمبلی کا کوئی رکن اکثریت کی شرائط کے مطابق وزیراعظم منتخب نہیں ہوپاتاتو صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اسمبلی تحلیل کرسکتاہے،وزیراعظم کے انتخاب کے لئے ضروری ہے کہ اسے 172ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہو،ایک وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے بعد اگر نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لئے منعقد کئے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزارت عظمیٰ کاکوئی امیدوار172ارکان کی حمایت حاصل نہیں کرپاتاتو صدر مملکت کو اختیار ہوگا کہ وہ اسمبلی تحلیل کرکے نئے الیکشن کا اعلان کردیں،آئین کے آرٹیکل48کے تحت صدر مملکت اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے کابینہ یا وزیراعظم کے مشورہ کے پابند ہیں لیکن اسمبلی کی تحلیل کے مذکورہ آئینی طریقہ کار کے تحت انہیں کسی کے مشورہ کی ضرورت نہیں ہے، اس بابت آئین میں وضاحت کردی گئی ہے۔
تجزیہ:سعید چودھری

مزید :

تجزیہ -