ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان مماثلت

   ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان مماثلت
   ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان مماثلت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

القادر ٹرسٹ المعروف 190ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان اور ان کی زوجہ سزا یافتہ ہو چکے ہیں۔ اپریل 22میں حکومت سے فارغ ہونے کے بعد سے عمران خان اور ان کی پارٹی اپنی مزاحمتی سیاست کے ساتھ سڑکوں سے ہوتے ہوئے اب عمران خان، ان کی اہلیہ جیل میں اور پارٹی قیادت کہیں چھپی ہوئی ہے۔ ریاست کے خلاف نہ صرف بیانیہ فیل ہو چکا ہے بلکہ مزاحمتی سیاست اپنی طبعی موت مر چکی ہے۔ عمران خان حکومت ابھی تک شعلے اُگل رہی ہے وہ ابھی بھی شیخ مجیب الرحمن، حمود الرحمن کمیشن اور ایسی باتیں کرتے نظر آتے ہیں جس سے ریاست کو غصہ آتا ہے۔ان کی پارٹی کذب بیانی اور دروع گوئی میں مصروف ہے وہ کبھی آرمی چیف سے ملاقات سے انکار کرتے ہیں، کبھی اقرار کرتے ہیں تو اس بارے میں بھی جھوٹ بولتے ہیں جس کی تردید آئی ایس پی آر کو کرنا پڑتی ہے۔ امریکی انتخابات میں 45اور 47 کے ہندسے کو پی ٹی آئی والوں نے پاکستانی سیاست سے جوڑنے کی ناکام کاوش کی۔یہاں فارم 45اور 47کا بہت ذکر کیا جاتا ہے لیکن امریکہ میں یہ ہندسے ٹرمپ کی سیاست کے حوالے سے الیکشن مہم کا حصہ بنے تھے۔ ڈونلڈٹرمپ پہلی بار امریکہ کے  45ویں صدر منتخب ہوئے تھے جبکہ گزشتہ انتخابات میں وہ 46ویں صدارتی انتخابات ہار گئے تھے وہ 46ویں صدر نہ بن سکے اس دفعہ انہوں نے 47ویں صدر بننے کے لئے انتخابی مہم چلائی اور کامیاب قرار پائے۔ اس طرح 45اور 47کا ہندسہ انتخابی عمل میں سامنے آیا جسے پی ٹی آئی نے پاکستانی سیاست کے حوالے سے ابھارنے کی ناکام کوشش کی۔ پی ٹی آئی اپنی تمام تر منفی کاوشوں کے باوجود، الیکشن 2024ء میں سب سے زیادہ پاپولر ووٹ لینے کے بعد بھی الیکٹورل پالیٹکس میں اپنی جگہ نہیں بنا پائی ہے انہیں ریلیف نہیں مل پا رہا بلکہ ان کی قیادت کو سزائیں  بھی ہو رہی ہیں۔ مذاکرات کی تین نشستیں ہونے کے باوجود معاملات ڈیڈلاک کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان اور ان کی پارٹی جھوٹ و کذب کی سیاست میں یدطولیٰ رکھتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ان کے معاملات بہتری کی طرف جاتے نظر نہیں آ رہے۔

190ملین پاؤنڈ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی نے فیصلہ سنانے والے جج ناصر جاوید رانا کے خلاف گندی مہم،سوشل میڈیا پر جج کے خلاف باتیں شروع کر دی ہیں یہاں یہ جان لینا ضروری ہے کہ اس کیس میں 100سے زائد پیشیاں ہوئیں اور اگر فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد کی پیشیاں بھی شامل کرلیں تو 106پیشیاں ہوئیں، جس میں پی ٹی آئی کے وکلاء بھی پیش ہوتے رہے اپنا نقطہ ء نظر بھی پیش کرتے رہے انہوں نے اس دوران کبھی بھی جج کے کنڈکٹ پر اعتراض نہیں کیا بلکہ وہ ان پر اعتماد  کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن فیصلہ آنے کے بعد انہیں پتہ چلا کہ جج صاحب کو سپریم کورٹ سے 2004ء میں ایک فیصلے پر ڈانٹ پڑی تھی اور یہ ڈانٹ تحریری طور پر تھی۔ حیران کن بات ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی قیادت کو یہ بات پہلے پتہ نہیں تھی۔ کور کمیٹی کے گزشتہ روز اجلاس میں شعیب شاہین نے بتایا کہ اس جج کے متعلق سپریم کورٹ سے ملنے والی ڈانٹ کے بارے میں فیصل چودھری کو پتہ تھا اور یہ ان کافرض تھا کہ وہ پارٹی قیادت کو اس بارے میں بتاتے۔ گویا شعیب شاہین نے سارا ملبہ فیصل چودھری پر ڈال دیا حالانکہ اس وقت پی ٹی آئی کی قیادت زیادہ تر وکلاء پر ہی مشتمل ہے اور 2004ء میں جج صاحب کو ملنے والی ڈانٹ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں تھی لیکن 106 پیشیوں کے دوران پی ٹی آئی والوں نے جج ناصر جاوید رانا کے کنڈکٹ کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ ایسا کرنا پی ٹی آئی کا وتیرہ رہا ہے کیونکہ ان کی سوشل میڈیا ٹیم ایسے ہی عزائم کی تکمیل کے لئے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور مقاصد کے حصول کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اپنے روایتی ہتھکنڈوں میں ناکامی کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے اب ان کی نظریں ڈونلڈ ٹرمپ پر لگی ہوئی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے  47ویں صدر کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ امریکہ کو اپنی اولین ترجیح قرار دے کر انہوں نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے منفی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف اعلان جنگ بھی کر دیا ہے۔ میکسیکو سے سرحدپھلانگنے والوں کو گولی مارنے کاحکم بھی دیا جائے گا۔ انہوں نے امریکہ کو تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا جنگوں کا خاتمہ بھی ان کے عزائم میں شامل ہے۔ انہوں نے اپنے دور حکومت کو نئے دور کا آغاز بھی قرار دیا ہے۔ سب سے اہم انہوں نے کرپٹ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر کیا اور قوم کو اس سے چھٹکارا دلوانے کا کہا۔ لگتا ہے امریکہ تبدیلی سے ہمکنار ہونے جا رہا ہے۔ عمران خان اور ٹرمپ میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔ عمران خان اچھے مقرر ہیں، باتیں کرنا، باتیں بنانا انہیں آتا ہے اور پھر طویل تقریریں کرنا جانتے ہیں اگر میں کہوں کہ لمبی لمبی چھوڑتے ہیں تو غلط نہیں ہو گا۔ عمران خان کی باتوں پر غور کیا جائے تو وہ الہامی اور سچی نظر آتی ہیں انہوں نے اپنی اسی صلاحیت اور ایسی باتوں سے نوجوانوں کی ایک معقول تعداد کو اپنا ہمنوا بنایا ہے۔وہ تبدیلی کی منترا لئے میدانِ سیاست میں اترے اور اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر چڑھ کر اقتدار میں آئے۔ بُری کارکردگی، کرپشن اور سیاسی ناپختگی کے باعث، اب مقدمات کا شکار ہیں جیل میں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہے ہیں۔ ٹرمپ بھی کچھ ایسے ہی ہیں لمبی لمبی تقریریں کرکے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔بیانیہ اچھا تشکیل دیتے ہیں۔ 45ویں صدر کے طور پر بُری کارکردگی کے باعث 46 ویں صدر بننے میں ناکام رہے۔ مقدمات کا شکار بھی ہوئے، جیل جاتے جاتے بچے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے مخالف کے طور پر بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر 47ویں صدر کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ عمران خان ابھی دوبارہ اقتدار میں آنے کی جدوجہد کررہے ہیں ان کی پارٹی کو امید ہے کہ ٹرمپ کی مداخلت سے ان کے بُرے دنوں کا خاتمہ ہو گا اور وہ ایک بار پھر بھاری اکثریت سے ایسے ہی اقتدار میں واپس آ جائیں گے جیسے ڈونلڈ ٹرمپ آئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ان کا راستہ نہیں روک سکے گی۔ بہرحال دیکھتے ہیں ٹرمپ کا اقتدار عمران خان کے لئے کیا پیغام لاتا ہے ان کے بُرے دن ختم ہوتے ہیں یا وہ ایسے ہی جیل میں پڑے پڑے گزارہ کریں گے، لیکن ایک بات ہے کہ ٹرمپ عمران خان کو پسند کرتے ضرور ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -