موسمی تبدیلیاں اور سارک چیمبر کا ڈھاکہ اجلاس

ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے ممالک آبادی کے لحاظ سے دنیا کی ہر تنظیم سے بڑھ کرہیں، لیکن بدقسمتی سے اتنی بڑی آبادی اور رقبے پر مشتمل ممالک کے وسائل محدود ہیں۔
سارک تنظیم کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے ممالک اپنے محدود وسائل کو مل جل کر اس طرح استعمال کریں کہ ان ممالک میں رہنے والے افراد غربت کی لکیر سے اوپر آکر باعزت اور خوشحال زندگی بسر کرسکیں۔
سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اس مقصد کے لئے مسلسل کوشاں ہے، اگرچہ انڈیا نے پاکستان میں منعقد ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت سے انکار کرکے سارک تنظیم کی اہمیت میں کمی ضرور کردی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی قیادت فعال ہے اور مسلسل کوشش کررہی ہے کہ اس تنظیم کو مضبوط سے مضبوط تر بناکر خطے کی معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا جائے، اگر اس سلسلے میں خدمات کو دیکھا جائے تو بجا طور پر سارک ممالک کو ایک ساتھ رکھنے کا کریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے، کیونکہ خوش قسمتی سے پاکستانی بزنس کمیونٹی کے لیڈر افتخار علی ملک جب سارک چیمبر کے نائب صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے سارک چیمبر کا ہیڈ آفس پاکستان لانے کی کوشش شروع کردی۔
قسمت نے بھرپور ساتھ دیا اور سارک چیمبر کا خوبصورت پلازہ اسلام آباد میں تکمیل کے آخری مراحل طے کررہا ہے۔
چند روز پہلے سری لنکا سے منتخب ہونے والے سارک چیمبر کے صدر جب اسلام آباد آئے اور انہوں نے سارک چیمبر کا ہیڈ کواٹر دیکھا تو بے اختیار افتخار ملک کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بولے کہ آپ نے سارک تنظیم کے شایانِ شان سارک چیمبر کا ہیڈ آفس تیار کرایا ہے۔
سارک چیمبر ہر تین ماہ کے بعد باری باری اپنے ایک ملک میں تازہ ترین حالات و معاملات کا جائزہ لینے اور مستقبل کی حکمتِ عملی تیار کرنے کے لئے اہم اجلاس منعقد کرتا رہتا ہے۔
اس ضمن میں تازہ ترین اجلاس موسمی تبدیلیوں اور اس کے معیشت پر اثرات کے حوالے سے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں منعقد ہوا، جس میں پاکستانی وفد نے سارک کے سینئر نائب صدر افتخار علی ملک کی قیادت میں شرکت کی۔ ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے اجلاس کی صدارت بنگلہ دیش کے وزیر جنگلات اور موسمی تغیر و تبدیلی انیس الاسلام محمود نے کی۔ سپیکر آئندہ سال سارک کے بننے والے صدر افتخار علی ملک تھے، مقررین نے موسمی تبدیلیوں پر بہت زبردست مقالے پیش کئے، جن کا لبِ لباب یہ تھا کہ اس وقت دنیا میں موسمی تبدیلیاں بہت تیزی سے رونما ہورہی ہیں، جن کے اثرات ہماری معیشتوں پر براہِ راست پڑ رہے ہیں، اگر ہم نے مل جل کر ان موسمی تبدیلیوں کے اثرات کا نوٹس نہ لیا تو ہماری زراعت ہی نہیں، بلکہ معیشت کے دوسرے شعبے بھی بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔ سارک چیمبر کے اجلاس میں سینئر نائب صدر افتخار علی ملک نے تفصیل سے پاکستان کی ان کوششوں کا ذکر کیا، جو پاکستان اقوامِ متحدہ کے تعاون سے کررہا ہے۔
پاکستان کلائمسٹ چینج ایکٹ 2016ء کے تحت موسمی تبدیلیوں کو قانون کا حصہ بنا چکا ہے۔ پاکستان پیرس ایگریمنٹ پر دستخط کرکے بین الاقوامی سطح پر موسمی تبدیلیوں پر کام کررہا ہے۔ کاربن کی مقدار کو کنٹرول کرنے کے لئے پاکستان کی صنعت و تجارت نے بہت سے اہم قدم اٹھائے ہیں، اگر اقوام متحدہ کے ممبران کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پاکستان کا شمار ان ممبروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے سنجیدگی کے ساتھ موسمی تبدیلیوں کے چیلنج کو قبول کیا ہے۔
حکومت پاکستان نے ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کا جائزہ لینے اور پاکستانی معیشت کو ان کے منفی اقدامات سے بچانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے ہیں اور ایک ایسی حکمت عملی وضع کی جارہی ہے کہ موسمی تغیر و تبدل سے معاشی طور پر فائدے اٹھائے جاسکیں، اگر اس وقت ایشیا میں موسمی تبدیلیوں کا مطالعہ کیا جائے تو حال ہی میں چین، جاپان اور انڈیا میں ضرورت سے زیادہ بارشوں کی وجہ سے جو سیلاب آئے ہیں، ان کی وجہ سے نہ صرف مالی و جانی نقصان ہوا ہے، بلکہ بہت سے ایسے مسائل بھی پیدا ہوگئے ہیں، جومعیشت کی ترقی کو سست کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
پاکستان کی معیشت ابھر رہی ہے۔ خود ساؤتھ ایسٹ ایشیا کی معیشتیں بھی ترقی کررہی ہیں، اس لئے سارک چیمبر کے فورم سے ہمیں ایسے منصوبے اور تجاویز پیش کرنے کی ضرورت ہے، جن سے ہماری معیشتیں موسمی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔
سارک کے پاکستانی و فد میں شریک سارک پاکستان کی سیکرٹری حنا نے واپسی پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ڈھاکہ میں سارک چیمبر کی کانفرنس بہت کامیاب رہی، خصوصاً پاکستانی وفد کی طرف سے پیش کردہ ٹھوس تجاویز کو بہت سراہا گیا۔ سارک چیمبر کے تمام ممالک اپنے نائب صدور اور صدر کے ساتھ تجارتی وفد بھی لائے تھے، خود پاکستان کی طرف سے بھی ایک تجارتی وفد شہریار ملک حمید چڈھا اور زبیر وغیرہ کے ساتھ شریک تھا، سارک کانفرنس کے بعد ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے تمام وفود کی ون ٹو ون ملاقاتوں کا اہتمام کیا گیا تھا، اس طرح بہت سے تجارتی معاہدے بھی ہوئے، نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے بھی اقدامات تجویز کئے گئے۔ یوتھ انٹرن شپ کو اور یوتھ انٹرپرینیور کو فروغ دینے کے لئے بھی اقدام کئے گئے۔
ویمن انٹر پرینیور کو فروغ دینے کے لئے بھی تجاویز پیش کی گئیں۔ مجموعی طور پر سارک کی ڈھاکہ میٹنگ ہر لحاظ سے ایک کامیاب اور نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔