ہتھیار ڈال دیں

ہتھیار ڈال دیں
ہتھیار ڈال دیں

  

اب جبکہ طالبان کو دوحہ ،، قطر ، میں دفتر کھولنے کی اجازت مل گئی ہے اور امریکی اس پیش رفت کا خیر مقدم کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وزیر ستان میں انتہاپسندوں کے خلاف پاک فوج کے آپریشن کا باب بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ فوج ویسے بھی وہاں کوئی آپریشن شروع نہیںکرنے والی تھی، ایسے کسی خدشے کو دل میں جگہ نہ دیجیے، لیکن جو تھوڑا بہت امکان تھاکہ شاید مستقبل میںبننے والی کسی ناگہانی صورت ِ حال کی وجہ سے فیصلہ کن آپریشن کیا جائے گا، وہ بھی ہوا میں تحلیل ہو چکا ہے۔ اب صورت ِ حال تبدیل ہو چکی ہے، کیونکہ جب امریکہ طالبان کے دوحہ میں کھولے گئے دفتر کے ساتھ گفت و شنید، چاہے یہ کتنی ہی بے مقصد کیوں نہ رہے، میں مصروف ہورہا ہے تو پھر پاک فوج کے پاس بھی نفسیاتی طور پر شمالی وزیرستان میںطالبان کے خلاف آپریشن کرنے کا کوئی جواز نہیںہے۔ فوج اس علاقے میں جیسے موجود ہے اور جیسے نیم دلی سے کارروائیاں کرتے ہوئے اپنے جوان اور افسران کا جانی نقصان برداشت کررہی ہے....(گزشتہ بدھ کو ہونے والی جھڑپ میں ہمارے چھ فوجی ہلاک ہوگئے تھے).... اور چاہے ہم جیسے مرضی غم وغصے کا اظہار کرتے رہیں، یہی سلسلہ چلتا رہے گا۔ اس جنگ میں وقت کا پانسہ طالبان کے حق میں تھا،کیونکہ اس طرز کی گوریلا جنگ کرنے والوںکے پا س موقع محل کا انتخاب زیادہ ہوتا ہے، جبکہ باقاعدہ فوج ان کے مقابلے میں غیر یقینی پن کا شکار ہوتی ہے ۔ اس طرح پاک فوج ،طالبان اور دہشت گردی کے حوالے سے منتشر خیالی کا شکار اس منقسم قوم نے فیصلہ کن کارروائی کا موقع گنوا دیا۔ اب جبکہ امریکہ سفارتی طور پر طالبان کو تسلیم کر رہا ہے، ہمارے لئے یہ پیش رفت طالبان کی کامیابی کے مترادف ہے، لیکن ہم بھول رہے ہیںکہ جو چیز ملاعمر کے لئے فتح کی نوید ہے، وہ ہمارے لئے پیغام ِ مرگ ہے، کیونکہ ملاعمر کی اسلامی ریاست ، جوبس امریکیوں کی روانگی کی منتظر ہے، کے قائم ہوتے ہی اس کی نظریاتی حدود کے آئینی خدوخال حکیم اﷲ محسود کی صورت میں پاکستان کے اندر تک سرایت کر آئیںگے۔

 بہرحال ہمیں دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ ہماری تاریخ کا کوئی نیا باب نہیں لکھا جارہا ، بلکہ تاریخ خود کو معکوس چکر میں دہرارہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کی شمال مغربی سرحد کے علاقے افغان سلطنت میں شامل تھے۔ یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ تھے، جنہوں نے افغانوںکو پیچھے دھکیل کر ان پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد یہ علاقے برطانوی راج کے تسلط میں آگئے ، اب پاکستان کی جغرافیائی حدود کا حصہ ہیں۔ تاہم 1979 ءمیں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت ، پھر 2001 ءمیں امریکی مداخلت نے ان علاقوں پر سے پاکستان کے کنٹرول کو کمزور کر دیا۔ تاریخ کا چکر کتنا ستم ظریف ہے، جنرل ضیاءالحق کی کمان میں کام کرنے والے ہمارے جنرل افغانستان میں سٹرٹیجک گہرائی تلاش کررہے تھے، جبکہ طالبان اور القاعدہ اس ”نیک مقصد“ کی خاطر پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ آج ،جبکہ امریکیوں اور طالبان کے مذاکرات ہونے جارہے ہیں، ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ امریکی طالبان سے ہتھیار رکھوا کر اُنہیں کسی گمنام سرزمین کی طرف روانہ کرنے نہیں جارہے ، بلکہ وہ صرف اپنی عزت بچاتے ہوئے یہاںسے انخلا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیںہے کہ وہ طالبان سے کہنا چاہتے ہیںکہ دیکھو ہم یہاںسے جارہے ہیں، ہمیں جانے دو، اس کے بعد تم جانواور تمہار ا کام جانے! کیا ہمارے لئے اس صورت ِ حال میں نوشتہ ¿ دیوار ہے یا نہیں؟

حامد کرزئی ہم سے زیادہ سمجھدار دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے غصیلے بیانات اس بات کی غمازی کرتے ہیںکہ وہ جان گئے ہیںکہ اُنہیں امریکیوںنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور اب وہ اپنے مقاصد کے لئے ان جانی دشمنوں (طالبان) کے ساتھ، اگر کوئی معاہدہ نہیں تو بھی، مذاکرات کررہے ہیں۔ بہرحال ، قہر ِ درویش ، بر جان ِ درویش، امریکیوںکو ان کے غصے سے کوئی سروکار نہیںہے۔ بہرحال حامد کرزئی حقیقی خطرے کا ادراک تو رکھتے ہیں، لیکن ہم ٹشوپیپر ، جس سے ہاتھ صاف کرنے کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے، کی طرح ہرکسی کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔ یہ ہماری ”ٹشوانہ روش “ ضیا الحق دور سے شروع ہوئی، ہنوز جاری ہے ، بلکہ اس ضمن میں ہماری مہارت کا ایک جہاں گواہ ہے، بلکہ ہماری ذہنیت دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ترقی کے امکانات روشن ہیں۔

بعض اور وجوہات کی بنا پر بھی ہماری جنگ کی حدود سمٹ چکی ہیں۔ ایک وجہ تو مرکز میں نواز حکومت ہے جو شروع دن سے ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ہمارے چمکدار بالوں والے نئے وزیر ِ خارجہ انٹیلی جنس ایجنسیوںکے کردار کے بارے میں کھرے کھرے بیانات دیتے رہتے ہیں اور ان میں کچھ صداقت بھی ہوتی ہے ، لیکن ان سے آپ یہ توقع نہ کریں کہ وہ طالبان کی مذمت میںایک جملہ بھی کہنے کے روادار ہوںگے۔ اگرچہ نواز شریف نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ضیا الحق کے دست ِ شفقت تلے کیا ،لیکن وہ بنیاد پرست نہیںہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس نازک وقت میں ہمارے وزیر ِ داخلہ چودھری نثار علی خان ہیں جودر اصل بنیاد پرست ہیں۔ گزشتہ پانچ سال سے ہم وزارت ِ داخلہ کو لکی ایرانی سرکس کی طرح قلابازیاں کھاتے دیکھتے رہے،اب اس میں بنیاد پرستی کا ”ٹھہراﺅ “ در آیا ہے۔ کوئٹہ میں ہونے والی خونریزی کی ذمہ داری لشکر ِ جھنگووی نے قبول کی تھی، چودھری صاحب کا کہنا ہے کہ بلوچستان پر بہت جلد کانفرنس بلائی جائے گی۔

عمران خان بھی طالبان سے بات چیت کرنے کے بہت بڑے حامی ہیں۔ جیسے یہ ”مذاکراتی عامل “ کم نہ تھے، محمود خان اچکزائی نے، جن کی تعریف میں میڈیااس طرح رطلب اللسان ہے، گویا ان کی تقریر ابراہم لنکن کا خطاب ِ ثانی ہو، اسمبلی میں کہا ہے کہ فوج کو قبائلی علاقوںسے واپس آجانا چاہیے۔ ایک بات اور کہ فوج بھی شمالی وزیرستان کی ریاست کے خلاف آپریشن کرنے کے حق میں نہیںتھی۔ اب جبکہ سیاسی قیادت کی یہ سوچ ہے تو آپریشن کا جو رہا سہا گردشی جھونکا تھا، وہ بھی ہوا ہو چکا ہوگا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی توسیع شدہ مدت ِ ملازمت بھی اس موسم ِ خزاں میں تمام ہونے والی ہے ، چنانچہ وہ جواز پیش کرسکتے ہیںکہ وہ بہت بڑی پلاننگ کرنے کی پوزیشن میں نہیںہیں۔

 اب جب طالبان سے بات چیت ہوگی تو کیا ہم اس مقدس گفتگو کی نوعیت کا ادراک رکھتے ہیں؟جب طالبان کی امریکیوں کے ساتھ بات چیت ہوگی تو یا تووہ فاتح اور مفتوح(امریکہ اور طالبان) کے درمیان ہو گی، جس میں فاتح اپنی شرائط منوائے گا اور شکست خوردہ کے پاس ان کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیںہوگا.... یا پھر یہ گفتگو دو برابر کے حریفوں، جس میں نہ کوئی خود کو فاتح سمجھے گا اور نہ مفتوح، کے درمیان ہوگی۔ ایسی صورت میں ”کچھ لو ، کچھ دو“ پر بات ختم ہوگی کہ فریقین کواپنے رویوںمیںکچھ لچک پیدا کرتے ہوئے دوسرے کا موقف ماننا اور اپنا منوانا ہوگا.... لیکن کیا پاکستانی امن پسندوں کی لابی یہ سمجھ رہی ہے کہ یہی صورت ِ حال پاکستان اور طالبان کے درمیان بھی پائی جاتی ہے؟ہر گزنہیں.... پاکستان طالبان سے اپنی شرائط منوانے کی پوزیشن میںہر گز نہیں، نہ ہی حکیم اﷲ محسود کے د ل کے نہاںخانے میں ایسی کوئی خواہش مچل رہی ہے کہ وہ پہاڑوںسے اتر کر بھاگے بھاگے جائیں اور پاکستانی حکام کے قدموں میں ہتھیار رکھ کر معافی کے طلب گار ہوں۔ طالبان بھی ہتھیار ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ پھر ہم کیا بات کریں گے، کس نکتے پر مذاکرات ہوںگے؟

ہم کہیں گے کہ دہشت گردی اور خود کش حملے ختم کردیں اور اس کے جواب میںطالبان کہیںگے”ٹھیک ہے، ہم دہشت گردی نہیںکرتے، آپ بھی فوجی آپریشن بند کر دیں اور ڈرون حملوںپر امریکہ سے سنجیدگی سے بات کریں“۔ دو مساوی طاقتوں ، جو ایک دوسرے کو شکست نہیں دے سکتیں، کے درمیان ایک حقیقت پسندانہ لین دین ہے، جو ایک اچھی پیش رفت کہی جاسکتی ہے(ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد ہم حسب ِ عادت مٹھائیاںبھی بانٹنی شروع کردیں )، لیکن کیا اس کے مضمرات پر ہماری نگاہ ہے؟ہمارے قبائلی علاقے ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور طالبان کا جھکاﺅ پہلے کی طرح اسلامی امارت افغانستان کی طرف مزید بڑھ جائے گا۔ اگر امن قائم کرنے کی یہی صورت ہے ، جس پر سب کا اتفاق ہے ، تو یہ ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے، تاہم اگر پے در پے حماقتیں ہمیں اس منزل پر لے ہی آئی ہیں تو شکوہ کس بات کا؟ویسے بھی جو لاعلاج مسئلہ ہو ، اُسے تسلیم کرنا ہی دانائی ہے۔ اگر عمران خاں، چودھری نثار، محمود اچکزئی اور فضل الرحمان کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کئے جانے کا امکان ہے، تو وہ پھر ان کے پاس دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کا موقع نہیںہوگا، بلکہ انہیں خود ذمہ داری اٹھانا ہوگی۔ اس کے علاوہ قوم کو ایک اور بھی مزیدار تماشا دیکھنے کو ملے گا کہ طالبان کسی طرح ان صلح پسندوں کو الّو بناتے ہوئے اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں۔

 ہمارے دفاعی ادارے اس وقت تصوارت سے عاری ہیں۔ ان کی صفوں میں کوئی مصطفی کمال نہیںہے ، اور نہ ہی یہ ترک فوج ہے۔ یہ بھی اتنی ہی کنفیوز ہے، جتنے سیاسی رہنما۔ چنانچہ فوج کے لئے بہتر یہی ہے کہ جو بھی غلطی ہونی ہے، جو ہم کرنے جارہے ہیں، تو وہ سیاسی قیادت کے ہاتھوںسے ہی سرزد ہو۔ مجھے بار بار یہ کہنا اچھا تو نہیں لگتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قوم سازی کی راہ پر چلتے چلتے ہمارے ہاتھ میں تین چیزیں ہی رہ گئی ہیں پنجاب، بم اور ڈیفنس ہاﺅسنگ سوسائٹی لشکر ِ جھنگوی کی طرف سے کوئٹہ میں کی گئی خونریزی کے بعد اگر کوئی حقیقی معنوں میں لیڈرہوتا تو اُس کا کیا رد ِ عمل ہوتا؟ وہ یقینا اس متحیر قوم کو کوئی واضح منزل کی جھلک دکھاکر بتاتاہے کہ ان بچیوںکی ہلاکت کے بعد اب ہمارے پاس کرنے کے لئے لائحہ عمل باقی ہے۔ وہ پنجاب میں موجود انتہا پسندوںکے خلاف ایکشن لیتا، لیکن ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی نہیںہوا ہے بس وزیر ِ اعظم صاحب کی طرف سے کچھ زبانی جمع خرچ، کچھ مذمت اور بس ختم۔

 پس ِ تحریر: سادگی پر مبنی بجٹ کے فوراً بعدپارلیمنٹ کے 33 وزراءکے کمروں میں نئے دو دو ٹن کے ائیر کنڈیشنز ، نئے ایل سی ڈی ٹی وی، نئے فرش، نئے باتھ رومز اور نئی تزئین و آرائش کی گئی ہے اور یہ سب کچھ ایمرجنسی بنیادیوںپر کیا گیا ہے۔یقینا سادگی کی یہ نہایت عمدہ مثال ہے ۔ قوم کواپنے درویش صفت رہنماﺅںپر فخر ہے۔

 نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔

مزید :

کالم -