عورت مارچ اور چند سنجیدہ سوالات
مجھے آج بہادر جرنیل نپولین بونا پارٹ کا ایک قول بہت یاد آرہا ہے ، اس نے کہا تھا: ’’ تم مجھے اچھی مائیں دو، مَیں تمہیں اچھی قوم دوں گا‘‘۔ عورت مارچ کے پوسٹرز پر اعتراضات اور اس پر لکھے غیر اخلاقی و غیر مہذب جملوں پر بہت بحث ہو رہی ہے۔
ایک بڑا طبقہ، جس میں خواتین کی اکثریت شامل ہے، ان پوسٹرز پر لکھے جملوں سے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے، جبکہ ایک قلیل طبقہ کسی ضدی بچے کی طرح اس کے حق میں ڈٹا ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کی بعض شکایات میں بڑا وزن ہے اور وہ احتجاج کا حق رکھتی ہیں،جبکہ دوسرا طبقہ سرے سے انکاری ہے کہ یہاں عورتوں کا استحصال ہو رہا ہے ۔
ان دونوں طبقات سے ہٹ کر آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ عورتوں کو مردوں سے جو شکایات ہیں،ان کے پیچھے اصل حقیقت کیا ہے اور ہمارے معاشرے میں کیوں خواتین کا استحصال کیا جارہا ہے، مردکیوں خود کو خواتین سے بالاتر سمجھتے ہیں اور اکثر خواتین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ مرد انہیں وہ عزت نہیں دیتے، جس کی وہ حقدار ہیں۔یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ انسان کی اصل تربیت اور اس کے کردار کی تشکیل اس کے ارد گرد کے ماحول سے ہوتی ہے اور یہ سب اوائل عمری میں ہی تشکیل پا جاتا ہے۔
اس میں سب سے اہم رول اس گھر کا ہوتا ہے جہاں وہ پرورش پاتا ہے۔ گھر میں اس کی تربیت اور کردار سازی میں نمایاں رول ماں کا ہوتا ہے، یعنی ایک عورت ہی انسان کی تربیت اور کردار سازی میں اہم رول ادا کرتی ہے۔
یہی وہ پہلی اور سب سے مضبوط درس گاہ ہے ،جہاں سے ایک مرد کی یہ سوچ پختہ ہوتی چلی جاتی ہے کہ وہ عورت سے برتر ہے اور اسے خواتین پر فوقیت حاصل ہے۔
گھر میں بہنیں بڑی ہوں یا چھوٹی بھائی کو ان پر ہمیشہ ترجیح دی جاتی ہے اور وہ خصوصی توجہ کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔سالن گرم کرنے سے لے کر موزے سنبھالنے تک،کپڑے دھو کر استری کرنے اور اس کی یونیفارم کو ترتیب سے رکھنے سے لے کر بستر بچھانے تک ہر کام گھر کی لڑکیوں یا خواتین کا فرض سمجھا جاتا ہے۔باہر سے سودا سلف لانا ہو یا کسی دفتر میں کام ہو تو یہ کام بیٹے کے ذمے لگائے جاتے ہیں اور اس کے ذہن میں اور گھر کی بچیوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ دفتروں میں مردہوتے ہیں جو خواہ مخواہ انہیں بری نظروں سے دیکھیں گے اور مرد کی عورت کے بارے میں نظریں ہمیشہ جنسی تسکین لئے ہی ہوتی ہیں۔
یہ سب کچھ کون اپنے گھر کے ایک نوجوان لڑکے کے ذہن میں ڈالتا ہے اور کون ہے جو اپنی لڑکیوں کو اس طرح مردوں سے خوفزدہ کرتا ہے ۔ جی ہاں وہ ایک ماں، یعنی ایک عورت ہی ہوتی ہے۔اس سوچ کا آغاز ایک عورت کرتی ہے ۔ ایک عورت جو ماں بھی ہوتی ہے، وہ اپنے بیٹوں کو خود گھر میں وہ کام نہیں کرنے دیتی، جس کی دہائی ہماری خواتین پوسٹر اٹھا کر دے رہی ہیں۔
اس حقیقت سے کیا پاکستان کی کوئی عورت انکار کرسکتی ہے کہ بطور ساس جب وہ اپنے بیٹے کے لئے بہو لاتی ہے تو کیا وہ یہ بات برداشت کر سکتی ہے جب اس کا بیٹا کام سے گھر آئے تو اپنا سالن خود گرم کر رہا ہو اور اپنے کپڑے خود استری کرے اور موزے ڈھونڈ رہا ہو ۔
یقین کیجئے ہماری یہی اپنا سالن خود گرم کرنے کا درس دینے والی خواتین اپنے بیٹے کے لئے ایسی بہو کو ایک ہفتہ بھی برداشت نہ کریں اور طلاق دے کر چلتا کریں۔
خواتین کو اگر وہ حقوق چاہئیں، جن کے لئے وہ سڑکوں پر ریلیاں نکال رہی ہیں تو اس کا آغاز انہیں خود سے اور اپنے گھروں سے کرنا ہوگا ،جس دن وہ اچھی مائیں بنیں گی، اس دن اس معاشرے کو اچھے مرد ملیں گے۔ سڑکوں پر انرجی ضائع کرنے کی بجائے اس کا آغاز گھروں سے کریں۔
گھر میں کام کرنے والی ایک ماسی اور چھوٹی عمر کی بچیوں پر پچھلے چند سال میں گھریلو تشدد کے جتنے افسوسناک واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، ان کے پیچھے خواتین ہی تھیں، جو مالکن بن کر بھول جاتی ہیں کہ دوسری عورت جو ملازمہ ہے، اس کے کیا حقوق ہیں؟ تشدد کرنے والی خواتین کوئی عام اَن پڑھ نہیں تھیں، بلکہ ان کا تعلیم یافتہ اور خوشحال طبقے سے تعلق تھا ۔
کام کرنے والی خواتین پر تشدد کے یہ تو وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ ایسی ایسی بھیانک اور دل دہلا دینے والی کہانیاں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ گھر میں پالتو کتے(pet) کو تو تازہ کھانا دیا جاتا ہے، جبکہ ملازمہ کو باسی کھانا کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے، ایسے ماحول میں آپ اپنی اولاد کی کیا تربیت کر رہی ہیں اور بیٹوں کو جو مرد ہیں، انہیں کیا سکھا رہی ہیں ؟پلے کارڈ پر جو جملے لکھے ہوئے ہیں، ان سے خوش نہ ہوں، اگر تو ان سے مردوں کی تذلیل سے اپنی انا کی تسکین کرنا مقصود ہے تو وہ الگ بات ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بات کا برملا اعلان ہے کہ عورتیں بطور ماں تربیت کا اہم کردار ادا کرنے میں بُری طرح ناکام ہوچکیں۔
آپ لوگوں نے پہلی درسگاہ میں اپنے بیٹوں کی وہ تربیت ہی نہیں کی، جس سے انہوں نے ایک مہذب مرد بننا تھا۔ جیسی تصویر آپ لوگ ایک مرد کی پینٹ کرنا چاہتی تھیں، ویسی تصویر بنانے میں آپ کامیاب نہیں ہو سکیں۔
موجودہ نسل بطور ماں،ساس،بہن آپ لوگوں نے خود تیار کی ہے ۔اگر ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ مرد کی کردار سازی کے خلا کی ذمہ دار بھی ایک عورت ہے ۔مرد اور عورت کے درمیان معاشرتی تفریق کی ذمہ دار ایک عورت ہی ہے، جس کا آغاز وہ اپنے گھر سے کرتی ہے۔
چلئے آپ نے ایک مارچ کر لیا۔ہر سال ہم یہی دیکھتے آرہے ہیں ۔سال میں ایک دن مارچ کرلیا، مردوں کو گالیاں دے دیں،جملے کسے،ناچ گانا کیا، ہر برائی کا ذمہ دار مرد کو ٹھہرایا اور پھر سارا سال غائب۔۔۔ آپ لوگوں نے اپنی بھڑاس نکال لی ،مغرب کو دکھا دیا کہ این جی او نے بڑا زبردست شو کیا ہے ،فنڈنگ جاری رہے گی۔سوشل میڈیا پر پوسٹروں کا چار دن شور بھی مچ گیا۔۔۔لیکن اب آگے کیا ہے۔
کیا عورتوں کا استحصال رک گیا۔عملی طور پر آپ لوگوں نے کیا کیا؟ اس ڈرامے سے کیا حاصل ہوا۔کیا ان مسائل کا کوئی حل دور دور تک نظر آتا ہے؟ان کو حل کرنے کی کوئی عملی تجاویز کوئی قابل عمل حل آپ لوگوں نے پیش کیا؟ان سب کا جواب نفی میں ہے۔دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ فضول انرجی ضائع کی گئی اور ہر سال کی جاتی ہے۔
اصل مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے، اس پر کوئی سنجیدہ مکالمہ سننے کو ملا، نہ کوئی مقالہ نظر سے گزرا، سوائے موم بتی گروپ کے شو کے اور کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ دراصل ہماری یہ خواتین اولاد کی تربیت میں ناکامی اور بیٹوں کے روپ میں مردوں کو ایک مہذب انسان، جو خواتین کا احترام کرنے والے ہوں، بطور ماں اس ناکامی کی ذمہ دار ہیں۔
آپ لوگ ایک ایسی مہذب نسل، جو خواتین کا احترام جیسے آپ چاہتی ہیں، دینے میں ناکام رہی ہیں ۔جب تک آپ لوگ اپنے گھر سے اس کا آغاز نہیں کرتیں، باہر کوئی آپ کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا ۔
بیٹوں کے برابر بیٹیوں کو وہی درجہ دیں گی ،بہو کو نوکرانی سمجھنے کی بجائے اپنے بیٹے کو کہیں گی کہ وہ اپنا سالن خود گرم کرے اور اپنا موزہ خود ڈھونڈے ،گھر میں کام کرنے والی عورت (ماسی) کا احترام کریں گی،حالات سے مجبور کام کرنے والی چھوٹی بچی کو پٹ سے بد سمجھنے کی بجائے انسان کی بچی سمجھ کر اس سے شفقت سے پیش آئیں گی، تب تک ممکن ہی نہیں کہ مرد کی سوچ بدل سکے۔مانا آپ ٹائر بدل سکتی ہیں، لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں، آپ کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی پھر کامیابی ملے گی۔ اپنے بیٹوں کی تربیت کرکے انہیں مہذب مرد بنا نا ہوگا
بچوں کو آیا اور چائلڈکئیر ہومز کے سپرد کرکے یہ بالکل ممکن نہیں۔ سڑکوں پر جلوس نکالنے اور ریلیاں برپا کرنے سے نہیں، اس کا آغاز آپ لوگوں کو ماں بن کر اپنے گھروں سے کرنا ہوگا۔