افراتفری اور  بے ترتیبی میں گھرا معاشرہ  

   افراتفری اور  بے ترتیبی میں گھرا معاشرہ  
   افراتفری اور  بے ترتیبی میں گھرا معاشرہ  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سوشل میڈیا پر عمان میں مقیم ایک پاکستانی کی ویڈیو نظر سے گزری جو کافی عرصے بعد 2 ماہ کے لیے پاکستان آیا اور کم و بیش یہاں سے بھاگ کر واپس چلا گیا کہ جس قدر افراتفری، بے ترتیبی  اطراف میں دکھائی دی اسے قبول کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔کسی بھی ملک میں روزگار کے لیے گئے ہوئے پاکستانی جب عرصے بعد یہاں لوٹتے ہیں تو یہاں مافیاز  کے پھیلائے ہوئے جال سے گزرنا اور اس کاحصہ بننا ممکن نہیں ہوتا۔ ہم چونکہ اس ماحول کا حصہ ہیں اس لیے ہم پر اس کے اتنے اثرات نہیں ہوتے یا کسی حد تک اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ رمضان المبارک میں  اس بار تو سڑکوں سے گزرنا اور کہیں کھڑے ہونا  تک محال ہو چکا۔اس پاکستانی نے وہاں کے ایک بازار سے گزرتے ہوئے ویڈیو بنائی اور سب سے بنیادی بات یہی کی کہ یہاں سب سے اہم چیز کوالٹی فوڈ ہے کہ ہم جو کچھ کھاتے ہیں اس میں ملاوٹ اور غیر معیاری ہونے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ یہاں کے نظام میں ایسا کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس کے مقابلے میں اپنے ہاں دیکھیں تو کھانے کی غیر معیاری اشیا کا ایک جم غفیر ہے  جس کے سبب ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی بیماری کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ کھانے کا غیر معیاری ہونا تو بہت معمولی بات  رہ گئی ہم نے تو لوگوں کو کھلائی جانیو الی چیزوں میں حلال و حرام کی تمیز بھی نہیں رہنے دی جس کی خبریں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں۔ مادیت پرستی کے آسیب نے معاشرے کو  خدائی احکامات اور وعیدوں سے کوسوں دور کر دیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک میں یہاں ہر چیز کے نرخ میں کمی کی جاتی ہے اور کوالٹی میں کہیں کوئی ذرہ بھر بھی فرق نہیں پڑتا جبکہ یہاں پورا سال انتظارکیا جاتا ہے کہ جو چیز پورا سال نہیں بکتی اسے رمضان کے سٹاک میں نکال دیا جاتا ہے اور نرخ  بھی کئی گنا بڑھا دئیے جاتے ہیں۔بعض لوگوں کے بارے میں تو سنا گیا ہے کہ وہ صرف رمضان کا سیزن لگا کر پورا سال آرام فرماتے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہ منافع خوری کا پرسنٹیج کس حد تک لیجایا جاتا ہے۔سبزیوں، پھلوں، گوشت اور خصوصاً چکن کی قیمتیں اس قدر مصنوعی ہو گئی ہیں کہ سن کر حیرت ہوتی ہے ۔اس صورت حال میں آمدن اور خرچ کا توازن برقرار رکھنا حقیقی معنوں میں ممکن نہیں رہا۔ایک منٹ کی گفتگو میں اس پاکستانی نے ایک اور بہت اہم بات کی کہ یہاں کہیں بھی کوئی بھکاری نظر نہیں آتا جبکہ یہاں دیکھیں تو رمضان کا مہینہ آتے ہیں سڑکوں، گلی محلوں میں مانگنے والوں کی پہلے سے موجود کھیپ میں نہ جانے کہاں سے بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے اور جس طرف چلے جائیں ہر کہیں ہاتھ پھیلائے ہوئے لوگ کہیں کھڑا ہونا یا چلنا پھرنا دوبھر کر دیتے ہیں۔ اس سے ایک چیز تو سامنے آتی ہے کہ یہ اتنے بڑے مافیاز ہیں کہ کئی بار کی پکڑ دھکڑ کے بعد بھی ان کو اپنے کام سے ہٹایا نہیں جا سکا۔ شہر میں کسی بازار، کسی دوکان، کسی چوک چوراہے پر کھڑے ہونے کی دیر ہے کہ کتنے ہی لوگ  ہاتھ پھیلائے آپ کے سامنے آنے لگیں گے۔   دبئی  کے پاکستانی ویزوں کی بندش میں ایک بنیادی وجہ یہ بھی شامل ہے کہ پاکستانی بھکاریوں کی کھیپ ان مافیاز کے ذریعے وزٹ ویزے لے کر  اس کام کے لیے آنا شروع ہو گئی تھی۔ سعودی عریبیہ میں عمرے کے ویزے کی سختی میں بھی اس وجہ سے پاکستانیوں کے لیے کافی سختی کر دی گئی ہے۔ یعنی یہ محض  کوئی قومی نہیں بلکہ پاکستانیوں کے بین الاقوامی کاروبار میں شامل ہو گیا ہے۔ کمال حوصلہ ہے ان لوگوں کا جو اس کام کے لیے لوگوں کو تنخواہ پر رکھتے ہیں اور ان کی کمائی کو کاروبار کہتے ہیں۔اس پاکستانی نے ایک اور بہت اہم بات کی کہ یہاں کسی بھی قسم کی کوئی افراتفری کا ماحول نہیں ہے۔ ایک سکون کی کیفیت ہے جو مجھے دوماہ پاکستان رہتے ہوئے محسوس نہیں ہوا۔ سڑکوں، راستوں، بازاروں، ہوٹلوں میں ایک افراتفری کا عالم ہے جیسے اس ماحول میں کوئی اضطراب ہے جس سے سکون چھین لیا گیا ہے۔ بجا طور پر ہم افطار کے وقت راستوں پر دوڑتی گاڑیوں اور انسانوں کی بے چینی کو دیکھیں تو واقعی لگتا ہے کہ ہم کسی ان دیکھی بے چینیوں کی زد میں ہیں جو ہمیں آسودہ ہونے ہی نہیں دیتیں۔ ہوٹلوں میں لگے بوفوں پر ٹوٹتے لوگوں کی افراتفری کو دیکھیں تو  واقعی اس ماحول سے گھن آنے لگتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم تہذیبی اقدار سے  کس قدر  دور ہو چکے ہیں۔ آخری بات اس کلپ میں امن و  امان کے حوالے سے کی گئی تھی کہ کہیں کوئی  سکیورٹی کی دندناتی گاڑیاں دکھائی نہیں دیتیں  او رنہ کہیں بھی آتے جاتے غیر محفوظ ہونے کا احساس نمایاں ہوتا ہے اوریہاں رمضان المبارک میں ہمارے ہاں چھینا جھپٹی کے واقعات میں بھی کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہر جگہ ہر کہیں ایک انجانا خوف سرائیت کئے ہوئے ہوتا ہے کہ نہ جانے کہاں کیا ہو جائے۔دوسری طرف دہشت گردی کی نئی لہر نے پہلے سے مضطرب ماحول کی تاریکی کو اور گہرا کر دیا ہے۔ سرکاری پروٹوکول کی گاڑیوں کی راستوں پر پھیلی  دہشت تو ایک طرف چند دن پہلے لاہور کے ایک انڈر پاس  کے نیچے پرائیویٹ  مسلح گارڈز کے  ڈالے کے ساتھ ہونے والی ایک شہری  کی ہجوم کے ہوتے ہوئے تنہا جھڑپ  نے بھی بہت سے سوال اٹھا دئیے۔بیرون ملک پاکستانیوں کو ملاوٹ سے پاک خوراک،پر امن ماحول، تہذیب و تمدن سے مزین معاشرہ، قانون کی حکمرانی اور اپنی محنت کا بہترین اجر میسر آتا ہے جس سے وہ بیرون ملک رہتے ہوئے اپنے اور اپنے پیاروں کی ضروریات پورا کر رہے ہیں جبکہ یہاں دن رات کام کرنے والے سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -