مضبوط سیاست،مستحکم جمہوریت

سیاست اور مشکلات میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سیاست کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں رہی۔پاکستان کی تاریخ تو اِس بات کی شاہد ہے، قدم قدم پر سیاسی جدوجہد کے نشان موجود ہیں اِس لئے اگر آج یہ کہا جا رہا ہے سیاست کرنا مشکل ہو گیا یا آزادیئ اظہار کے حوالے سے زمین ہموار نہیں رہی تو میں اسے نہیں مانتا۔ہاں البتہ میں یہ ضرور مانتا ہوں کہ فی زمانہ وہ ماضی کی لیڈر شپ نظر نہیں آتی، جوبات کرنے کا سلیقہ بھی جانتی تھی اور کانٹوں کی سیج سے بھی بچی رہی تھی۔آج کی نسل کو شاید معلوم نہیں اس ملک کی تاریخ کیسے کیسے واقعات سے بھری پڑی ہے جس ملک میں چار بار باقاعدہ مارشل لاء لگا ہو اور چاروں مرتبہ ایک جمہوری جدوجہد کے ذریعے مارشل لاء سے نجات بھی حاصل کی گئی ہو،وہاں یہ کہنا کہ سیاسی جدوجہد نہیں ہوئی یا آج سیاست مشکل ہو گئی ہے،ایک بے معنی سی بات لگتی ہے۔میں خود اپنے لڑکپن اور جوانی کے ایام یاد کرتا ہوں تو اَن گنت تحریکیں یاد آتی ہیں اور اَن گنت ایسے سیاسی رہنما، جنہوں نے طیش سے نہیں تدبر سے آگے بڑھنے کا راستہ نکالا۔ آپ اس بات سے بھی سیاسی طاقتوں کے وجود کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف تمامتر طاقت ہونے کے باوجود کبھی بنیادی جمہوریت اور کبھی مجلس شوریٰ جیسے انتخابات کرانے پر مجبور ہوتے رہے۔ضیاء الحق تو اس حد تک مجبور ہوئے کہ بے نظیر بھٹو کو وطن واپسی کا راستہ دینا پڑا،حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد یہ بہت مشکل لگتا تھا کہ ضیاء الحق اُن کی بیٹی کو پاکستان آنے دیں گے۔اِسی طرح ایک وقت آیا کہ پرویز مشرف کو شریف خاندان پر واپسی کا دروازہ کھولنا پڑا۔اصل میں سیاسی جدوجہد سیاسی شخصیات کی وجہ سے زندہ رہتی ہے۔آج کل اُس پائے کی شخصیات تو ناپید ہیں البتہ سوشل میڈیا کی وجہ سے شور شرابہ زیادہ ہے۔آج کی اپوزیشن پر جب میں نظر ڈالتا ہوں تو مجھے نہ کوئی نوابزادہ نصر اللہ جیسا مدبر نظر آتا ہے اور نہ مولانا شاہ احمد نورانی یا مولانا مودودیؒ جیسا رہبر۔آمروں کے چھکے چھڑانے والے یہ زعماء میدان میں نکلتے تھے تو اُن کی بات ہی اِس قدر اثر انگیز ہوتی کہ جہاں پیغام پہنچنا چاہئے ہوتا پہنچ جاتا۔اصل میں اب سیاست کے اندز بھی بدل گئے ہیں۔اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں ہیں۔تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام(ف) کوئی ایسا ہے ہی نہیں جو انہیں ایک جگہ بٹھا سکے۔ایک زمانہ تھا نو سیاسی جماعتیں ایک تحریک کے نکتے پر اکٹھی ہو گئی تھیں۔اُس اتحاد کو نو ستاروں کا نام دیا گیا تھا۔ایک سمت کا تعین ہوا تھا اور عوام کو بھی معلوم تھا وہ کس طرف جا رہے ہیں، سیاست اور جمہوریت کو اس ملک میں زندہ رہنا ہے، کیونکہ یہ دونوں اس کی تخلیق کا جواز ہیں،لیکن سیاست کو ایک لیڈر شپ کی ضرورت ہوتی ہے۔عمران خان جیل میں ہیں تو ایک بڑے لیڈر ہیں مگر سوال یہ ہے جیل سے باہر آ کر کوئی ایسی تحریک منظم کرنے کی پوزیشن میں ہیں، جو ملک میں حقیقی اور پائیدار جمہوریت کی بنیاد بن سکے، اُن کے جیل میں ہونے کے بعد خود تحریک انصاف کی تنظیمی صورت حال کا جو نقشہ سامنے آیا ہے وہ کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں، یہ تو عوام کی عمران خان سے وابستگی ہے، جس کے باعث پارٹی بچی ہوئی ہے وگرنہ جو پارٹی رہنما یا عہدیدار بنتے رہے ہیں،انہوں نے پارٹی کو گراس روٹ لیول تک متحرک کرنے میں مکمل ناکامی سمیٹی ہے۔
پاکستان ابھی ایسا ملک تو بن نہیں سکا جہاں آئیڈیل جمہوریت ہو، یہاں بہت سی قوتیں اور زمینی حقائق ہیں جن سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔پارلیمنٹ کو سپریم قرار دینے کی باتیں تو میں خود اپنے ہوش میں نصف صدی سے سن رہا ہوں اس کے لئے جس بے غرضی، ایثار اور قومی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے،وہ ہر دور میں مفقود رہی ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے بھی قدم قدم پر سمجھوتے کئے ہیں،پارلیمنٹ ہوا میں مضبوط تو نہیں ہو سکتی۔ اسے تو زمین پر مضبوط ہونا ہے لیکن ہماری تاریخ گواہ ہے سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کی کوشش میں حصہ ڈالنے کے لئے اپنا کندھا پیش کیا۔کبھی ایک اور کبھی دوسری جماعت یہ کام کرتی رہی۔ ایک بار تمام سیاسی جماعتیں اس یک نکاتی ایجنڈے پر ڈٹ جاتیں کہ پارلیمنٹ کو مضبوط بنانا ہے تو ہمیں آج تک ہونے والے تجربات سے نہ گزرنا پڑتا۔ہمیں بڑا دل کر کے اس حقیقت کو مان لینا چاہئے کہ جمہوریت کا دشمن کوئی اور نہیں خود ہمارے سیاسی رویے،سیاسی کردار اور آگے بڑھ کر سیاسی جماعتیں ہیں، ایسا نہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک کو اِن حالات کا سامنا نہیں رہا،جن سے ہم گزرے ہیں یا گذر رہے ہیں۔ کیا امریکی جمہوریت پہلے دن سے اتنی ہی مضبوط تھی جتنی آج ہے؟ کیا ترکی نے ایک طویل تاریخ نہیں دیکھی،کیا جرمنی، کینیڈا، بھارت جیسے دیگر بڑے ممالک جہاں آج پارلیمنٹ اور جمہوریت مستحکم بنیادوں پر موجود ہے صرف سوئچ آن کرنے سے ایسا بن گئی تھیں ایسا سوچنا بھی حماقت ہے۔ یہ سب حاصل کرنے کے لئے تو بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے،اَنا، ذاتی مفاد، وقتی اقتدار اور آج کو کل کے روشن مستقبل کے لئے قربان کرنے کی سوچ،اس کے زادِ سفر ہوتے ہیں۔ ہماری جماعتوں اور سیاستدانوں نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔بڑی بڑی تحریکیں چلیں،کامیابی کی منزل کے قریب بھی پہنچیں، مگر جمہوریت کی فتح کا جھنڈا نہ گاڑ سکیں۔
کسی سیانے کا قول ہے جس ملک میں سیاسی قوتیں تقسیم ہو جائیں وہاں سیاست پنپتی ہے اور نہ جمہوریت، ہمارے ہاں یہ فیشن بہت پرانا ہے کہ اپنی سیاسی ناکامیوں اور خود غرضیوں کو اسٹیبلشمنٹ کے پلڑے میں ڈال کے اپنی جان چھڑا لی جائے۔اسٹیبلشمنٹ کس ملک میں نہیں ہوتی، وہ تو ہو گی کہ ملک کے نظام کو قائم ر کھنا اُس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ جیسا امریکی صدر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے، مگر ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب اسٹیبلشمنٹ کے مقابل ایک مضبوط سیاسی نظام بھی موجود ہو۔ہماری سیاست ٹکڑوں میں بٹی ہوئی اور منتشر الخیالی کا ایک مکمل نمونہ ہے۔جب ایک مضبوط سیاست ہی نہ ہو تو ریاست کے فیصلے کیسے مستحکم ہو سکتے ہیں۔قصہ مختصر یہ ہے کہ سات دہائیوں کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ایک بے چینی، بے یقینی، انتشار اور مکمل نفسا نفسی نظر آئے گی۔ملکی تاریخ میں شاید ایک دو مواقع ہی ایسے آئے ہوں گے جب تمام سیاسی قوتیں ایک جگہ بیٹھی ہوں۔وگرنہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا سلسلہ ہماری سیاست کا جزو لاینفک رہا ہے۔ آج اپوزیشن کی طرف سے ہاہا کار مچی ہوئی ہے کہ پارلیمنٹ،جمہوریت اور عدلیہ اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہیں یہی بات اُس زمانے کی اپوزیشن بھی کہتی تھی جب ملک میں تحریک انصاف کی حکومت تھی، نہ اُس وقت اپوزیشن کی سنی گئی نہ آج سنی جائے گی،کیونکہ ساری سیاست کے رنگ ڈھنگ شروع دن سے نرالے ہیں ہم جو اقتدار میں اپنے لئے مانگتے ہیں وہ دوسروں کے لئے شجر ممنوعہ قرار دے دیتے ہیں،کیا اس طرح جمہوریت پنپ سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭