زندگی میں پہلی اور آخری بار فینسی ڈریس شو میں حصہ لیا، ہندو کا روپ ایسا دھارا کہ میں منہ پر رام رام تھا بغل میں چھری، ویسی شام دوبارہ نہ آئی،یاد گار وقت تھا

زندگی میں پہلی اور آخری بار فینسی ڈریس شو میں حصہ لیا، ہندو کا روپ ایسا دھارا ...
زندگی میں پہلی اور آخری بار فینسی ڈریس شو میں حصہ لیا، ہندو کا روپ ایسا دھارا کہ میں منہ پر رام رام تھا بغل میں چھری، ویسی شام دوبارہ نہ آئی،یاد گار وقت تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:116
 سلمان ثانی کینسر سے مر گیا اور انکل اس غم میں؛ 
میرا کرکٹ کپتان یاور حفیظ تھا۔ خواجہ شہزاد ببلی، ضیا(کالا) مرحوم، عمران سعید، اکبر خاں، راشد عثمان، غیاث الدین(جینی)، ندیم غوری، ایاز ٹانگا، عتیق گوہر، ارشد خاں، نواز، کالج کے نامور کھلاڑی تھے۔عمران بچہ بھی کپتان رہے لیکن وہ مجھ سے 2سال سینئر تھے۔ سلمان ثانی بھی کرکٹ ٹیم کا رکن اور میرا بہت عزیز دوست تھا۔ جوانی میں وہ انگلینڈ سے پٹرولیم میں ڈپلوما کرکے آیا، پاکستان سٹیٹ آئل میں ملازمت کرتا تھا۔افسوس خون کے سرطان میں مبتلا ہوا، خوب اس سے لڑا بھی لیکن ہار گیا اور ہم سب کو روتا چھوڑ کر اپنے ابدی گھر چلا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس کے والد انکل وزیر ثانی اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کا صدمہ برداشت نہ کر سکے اور اس کی موت کے چند ہفتے بعد وہ بھی اس کے پہلو میں جا کر ہمیشہ کے لئے سو گئے۔ سلمان کینسر سے مر گیا اور انکل اس کے غم میں۔ باپ بیٹے کی یاری پکی تھی۔ اللہ اولاد کا غم کسی ماں باپ کو نہ دکھائے۔اس کی وفات کے بعد آج تک کوئی بھی ایسی نماز نہیں جس میں انکل اور صلو کی بخشش کی دعا میں نے نہ کی ہو۔اللہ ان کے درجات بلند کرے۔آمین۔
فینسی ڈریس؛
زندگی میں پہلی اور آخری بار فینسی ڈریس میں حصہ لیا اور ہندو کا روپ بھی ایسا دھارا کہ میں منہ پر رام رام تھا جبکہ بغل میں چھری۔ ہوا یوں کہ ہم دوستوں (کالج کی کرکٹ ٹیم) نے عمران سعید کے سسرالی گھر گلبرگ میں فینسی ڈریس پر اکٹھے ہوئے۔عمران جعلی نواب بنا۔ ضیاء مرحوم نے قصائی کا روپ دھارا، یاری پادری بنا،خواجہ ببلی بحری قزاق تھا، طاہر کرلا میراثی(لمبی زبان ہر وقت ہونٹوں پر پھیرتا رہتا تھا یوں دوست اس کرلا کہتے تھے۔) جبکہ عتیق جو کر بن کر فینسی ڈریس کا پہلے انعام کا حق دار بنا۔ اپنی مدھر آواز میں فلم ”جوکر“ کا مشہور زمانہ گانا”کہتا ہے جوکر“ گا کر وہ شام اُس نے اپنے نام کر لی تھی پھر ویسی شام دوبارہ نہ آئی۔ وہ یاد گار وقت تھا۔ سیانے کہہ گئے ہیں؛ ”صالح اور مخلص دوست مرشد بھی ہوتا ہے اور مرید بھی“۔ 
اس دور کے مسیحا؛
اس دور کے ڈاکٹر بھی بڑے کاریگر تھے۔ باتوں اور ہمدردی کے بول سے مریض کو آ دھا ٹھیک کر دیتے تھے۔ وہ healing through words  کی جیتی جاگتی مثالیں تھے دوائی تو بہت بعد کی ایجاد تھی۔ بیمار کو نرم غذا تجویز کرتے اور نرم غذا میں ڈبل روٹی کے ٹوسٹ شوربے میں بھگو کر کھانے کو کہتے۔ میں نے ایک عمر تک ڈبل روٹی اسی لئے نہیں کھائی کہ میرے نزدیک یہ بیماروں کی غذا“ تھی۔ ڈبل روٹی مقامی بیکریوں میں تھوڑی سی تعداد میں ہی تیار ہوتی تھی۔ رس پاپے، کیک رس، نمکین اور میٹھے بسکٹ ان بیکریوں کی دوسری سوغاتیں تھیں۔ اس دور میں ساہی وال  بسکٹ فیکٹری ”نائس“(nice)  بسکٹ بناتی جنہیں ہم بچے چینی والے  بسکٹ“ کہتے  تھے کہ ان کی سطح پر چینی کے دانے چپکے ہوتے تھے۔دوسرا قابل ذکر  بسکٹ ”سالٹش“ تھے جو آج بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جبکہ نائس عرصہ ہوا بننے ہی بند ہو گیا۔ یہ دونوں ہی میرے من بھاتے تھے۔ سالٹش تو آج بھی داؤ لگے تو میں کھاتا ہوں۔ مسلم ٹاؤن موڑ، فیروز پور روڈ لاہور ”بی پی“ کی ڈبل روٹی اور بند کی فیکٹر ی تھی جس کی بنی پراڈکٹس مارکیٹ میں بہت پسند کی جاتی تھیں۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -