الیکشن کمیشن اپنے طور نگران وزیر اعظم کے تقرر کا مجاز نہیں
تجزیہ :سعید چودھری
نگران وزیراعظم کے لئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے درمیان مشاورت کے کئی دور ہوچکے ہیں ،نگران وزیراعظم کے لئے مختلف ناموں پر قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں ،ان میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب عبداللہ حسین ہارون ، موجودہ مندوب مدیحہ لودھی، سابق چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی ،امریکی میں سابق پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی ،سٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین اور ڈاکٹر شمشاد اختر اورکرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین ذکاء اشرف کے نام بھی شامل ہیں ۔نگران حکومت کے حوالے سے کئی سازشی نظریات بھی گردش میں ہیں ۔سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ نگران وزیراعظم کا معاملہ باہمی افہام وتفہیم سے حل ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں کیوں کہ حکومت سازشی نظریات کو ناکام بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔امکان ہے کہ آج 22مئی کو اس حوالے سے مثبت پیش رفت سامنے آجائے گی ۔آئین کے تحت اگر وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے درمیان کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہوسکے تو پھر نگران وزیراعظم کا تقرر کیسے ہوگا؟نگران وزیراعظم کے تقرر کا معاملہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد کتنے دنوں تک لٹکایا جاسکتا ہے ؟کیا الیکشن کمشن اپنے طور پر نگران وزیراعظم کا تقرر کرنے کا مجاز ہے ؟نگران حکومت کو کس قسم کے اختیارات حاصل ہوں گے ؟اوریہ کہ کیا سپریم کورٹ یا چیف جسٹس پاکستان کو نگران وزیراعظم کے تقرر کے معاملے میں آئین کوئی اختیار تفویض کرتا ہے ؟
نگران حکومت کے قیام میں سپریم کورٹ یا چیف جسٹس پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے ۔اس سلسلے میں آئین میں کوئی ایک آرٹیکل بھی ایسا موجود نہیں جس کے تحت سپریم کورٹ یا چیف جسٹس پاکستان کو نگران حکومت کے قیام کا کوئی اختیار دیا گیا ہو۔آئین کے تحت نگران وزیراعظم کا تقرر وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اتفاق رائے سے کرتے ہیں،اگر دونوں کسی ایک نام پر متفق ہوجائیں تو اسمبلی اور حکومت کی تحلیل کے ساتھ ہی نگران وزیراعظم اپنا عہدہ سنبھال لیں گے ۔آئین کے آرٹیکل224(اے)کے تحت اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کا اسمبلی کی تحلیل یامعیاد ختم ہونے کے بعد 3روز تک نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہوتا تو سپیکر قومی اسمبلی فوری طور پر ایک 8رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیں گے جو تحلیل شدہ اسمبلی کے ارکان یا سینیٹرز یا پھر دونوں پرمشتمل ہوگی تاہم شرط یہ ہے کہ اس میں اپوزیشن اور حکومت کے ارکان کی تعداد برابر ہوگی ۔آئین کے تحت اسمبلیاں تحلیل بھی ہوجائیں تو سپیکر کا عہدہ برقراررہتا ہے اور وہ آئندہ منتخب ہونے والی اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہیں اورارکان اسمبلی سے حلف لیتے ہیں جس کے بعدنیا سپیکر منتخب کیا جاتا ہے ۔سپیکر کی طرف سے تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی کو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی طرف سے 2،2نام بھیجے جائیں گے ،یہ پارلیمانی کمیٹی بھی3روز کے اندر اندروزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی طرف سے بھیجے جانے والے ناموں میں سے کسی ایک کو نگران وزیراعظم نامزد کرے گی،یوں یہ کام 6روز میں مکمل ہوجائے گا ۔اگر کمیٹی 3روز کے اندر نگران وزیراعظم نامزد نہیں کرتی تو پھر یہ معاملہ فوری طور پر الیکشن کمشن کے پاس چلا جائے گاجو 2روز کے اندر اندر مذکورہ ناموں میں سے کسی ایک کو وزیراعظم نامزد کرے گا اور الیکشن کمشن کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ الیکشن کمشن صرف ان ہی 4ناموں میں سے کسی ایک کو وزیراعظم نامزد کرے گا جو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے ہوں گے ۔آئین کے تحت وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر یا پارلیمانی کمیٹی نگران وزیراعظم کی نامزدگی میں ناکام رہتے ہیں اور معاملہ الیکشن کمشن کے پاس جاتا ہے تو بھی نگران وزیراعظم کے تقرر کا معاملہ 8دن کے اندر اندر مکمل ہوجاتا ہے ،یہی طریقہ کار نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے لئے استعمال ہوگا ،آئین کے آرٹیکل224(اے)4کے مطابق نگران وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے تقرر تک موجود ہ وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ اپنے عہدوں پر قائم رہیں گے خواہ ان کے عہدوں کی معیاد پوری ہو چکی ہو۔اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد آئین میں نگران وزیراعظم کے تقرر کا تنازع حل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ 8روز دیئے گئے ہیں ۔موجودہ حکومت اور اسمبلی کی 5سالہ معیاد 31مئی کو پوری ہورہی ہے ،اگر وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے درمیان نگران حکومت کے لئے اتفاق رائے نہیں ہوتا تو بھی نگران وزیراعظم کے تقرر کا معاملہ آئینی طریقہ کار کے تحت 8جون 2018ء سے آگے نہیں جاسکتا۔
آئین کے آرٹیکل 224کے تحت قائم ہونے والی نگران حکومت (وفاقی یا صوبائی )کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو منتخب حکومتوں کو حاصل ہیں ۔آئین میں اس بابت ان کے اختیارات پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی ہے تاہم آئین کے آرٹیکل 224(1)بی میں یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ نگران کابینہ کے ارکان بشمول نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلیٰ کے ساتھ ساتھ ان کے بیوی بچے اسمبلیوں کے فوری آنے والے انتخابات میں حصہ لینے کے مجاز نہیں ہوں گے ۔آئینی طور پر نگران کابینہ کوکاروبار حکومت چلانے کے لئے آرڈیننس جاری کرنے کی ایڈوائس دینے کا اختیار بھی حاصل ہے ۔نگران حکومت انتظامی افسروں کے تبادلوں کی بھی مجاز ہے ،جیسا کہ 2013ء کے عام انتخابات میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے کلیدی عہدوں پر تعینات متعدد افسروں کو تبدیل کردیا تھا ۔آئین کے آرٹیکل 220کے تحت وفاق اور صوبوں کے تمام حکام چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشن کے احکامات اور ان کے کارہائے منصبی کی انجام دہی کے لئے معاونت کے پابند ہیں۔عام طور پر الیکشن شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد الیکشن کمشن کی طرف سے سرکاری ملازمین کے تبادلوں پر پابندی عائد کردی جاتی ہے ،اس کے باوجود اگر متعلقہ نگران حکومت کچھ افسروں کے تبادلے ناگزیر سمجھے تو وہ اس بابت الیکشن کمشن سے اجازت لے کر مناسب احکام جاری کرسکتی ہے ۔آئین کے تحت نگران حکومت کے اختیارات پر کوئی پابندی نہیں ہے تاہم اعلیٰ عدالتوں کے متعدد فیصلے موجود ہیں جن میں قراردیا گیا ہے کہ نگران حکومت روز مرہ کے سرکاری امور ہی نمٹا سکتی ہے ،وہ کوئی طویل مدتی پالیسی جاری کرنے کی مجاز نہیں کیوں کہ ایسی پالیسی جاری کرنا منتخب حکومت کا کام ہے ۔سرکاری افسروں کے تبادلے روز مرہ حکومتی امور کے زمرہ میں آتے ہیں ۔نگران حکومت تبادلے کرسکتی ہے تاہم عدالتی فیصلوں کی روشنی میں ان تبادلوں کی بابت کوئی جنرل پالیسی جاری نہیں کرسکتی ۔
سعید چودھری