415پاکستانیوں کے83کھرب ڈالر سوئس بینکوں میں
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 415امیر لوگوں نے83کھرب ڈالر کی دولت بنکوں میں جمع کرا رکھی ہے۔ یہ خبر پڑھتے ہی میرے دل و دماغ پر ایک ضرب لگی۔ سوال پیدا ہو گا کہ کیا یہ لوگ پاکستان کے خیر خواہ ہیں؟ اِن لوگوں نے ایسے کیوں کیا ہے؟ کیا وہ پاکستان کی سلامتی اور اس کے مستقبل سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں؟ پاکستان کی غالب اکثریت پاکستان کی حاکمیت اور آزادی کی خاطر مر مٹنے کو ہمیشہ کی طرح اب بھی تیار بیٹھی ہے۔ پاکستان تا قیامت قائم و دائم رہنے کے لئے معرض وجود میں آیا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ سب پاکستانی لوگ ہیں۔ پاکستان کو لوٹ کر اِن لوگوں نے یہ ساری دولت اکٹھی کی تھی۔ اِن تمام لوگوں کی مکمل فہرست جلد از جلد قوم کے حوالے کی جائے۔ پاکستانی قوم کو اس بات کا پورا علم ہو سکے کہ ان لوگوں کی1947ءمیں کیا حیثیت تھی اور وہ کس طرح اب ”ارب پتی“ بن گئے ہیں۔
یہ بات ایک حقیقت بن کر سامنے آ چکی ہے کہ آج بھی پاکستان کے بہت سارے علاقے پتھر کے زمانے کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اَن گنت لوگ ایسے موجود ہیں، جن کے گھروں کی چھت صرف نیلا آسمان ہے۔ پانی تو ان لوگوں کے لئے ”آب زم زم“ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ تعلیم اور روزگار ناپید ہیں۔ آئے روز کئی لوگ تنگ دستی، بے روز گاری اور انتہائی مفلسی کی بنا پر خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پورے پاکستان میں ”شدت پسندی اور لاقانونیت“ کا بازار گرم رہتا ہے۔ ہزاروں لوگ خود کش حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ یہ لوگ کیوں مرنے مارنے پر تیار ہو گئے ہیں۔ زندگی تو صرف ایک بار ہی ملتی ہے۔ یہ لوگ اتنی بھاری قیمت ادا کرنے پر کیوں تیار ہو گئے ہیں؟ کسی اور کو قتل کرنا یا خود کسی اور کے ہاتھوں قتل ہونا یہ انسانی زندگی کے سب سے بڑے واقعات ہوتے ہیں۔
ان حالات اور واقعات پر غور کرنا نہ صرف حکمرانوں کا کام ہے، بلکہ یہ تو سول سوسائٹی کے تمام طبقات پر فرض ہے کہ وہ اس انتہائی اہم قومی مسئلے پر غور کریں۔ قوم کو بتایا جائے کہ اس طرح کے تباہ کن واقعات سرزمین پاکستان پر کیوں”رونما“ ہو رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ آج پریشانی اور مایوسی کے بھنور میں پھنسا ہوا نظر آتا ہے، کسی بھی شہری کو سکون و آرام کی دولت میسر نہیں، ہر کوئی خوفزدہ نظر آتا ہے۔ مَیں نے اس مسئلے پر گہرا غور کیا ہے، اس بے چینی کی سب سے بڑی وجہ مجھے یہ نظر آتی ہے کہ آج تک ہم ان مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، جن مقاصد کے حصول کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے بے مثال جانی اور مالی قربانیاں دی تھیں اور پاکستان بنا تھا۔کیا ہم بھول چکے ہیں کہ اِسی پاکستان کی خاطر برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے ہجرت کا بے مثال راستہ اختیار کیا تھا؟ اس طرح وہ اپنی ”جائے پیدائش“ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ راستے میں ہزاروں اور لاکھوں لوگ قتل کر دیئے گئے تھے۔ ہم لوگ ان لوگوں کی اولاد میں سے ہیں، ہمیں پاکستان وراثت میں ملا ہے۔ پاکستان کی حفاظت کا مشکل کام بھی ہم سب پاکستانیوں نے مل کر کرنا ہے۔
زلزلے کی وجہ سے پاکستان کا ایک حصہ تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ اس قدرتی آفت کی وجہ سے آواران بلوچستان کے ہمارے پیارے بھائی اور بہنیں کھلے آسمان کے نیچے ہم سب کی امداد کے انتظار میں بے یارو مددگار بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان متاثرین کی آباد کاری اور بحالی کے لئے اربوں روپوں کی ضرورت ہے۔ یہ قیمتی وقت ہمیں قدرت کی طرف سے ملا ہے کہ ہم سب اپنے ہم وطنوں کی ”دامے، درمے،قدمے سخنے“ مدد کریں۔
یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ متاثرین زلزلہ بھوک پیاس اور کئی ایک بیماریوں کا شکار بنتے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم جاپان سے مفید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ جاپان میں دُنیا کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ جاپانیوں نے زلزلے کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے لچک دار عمارتیں تعمیر کر رکھی ہیں۔ یہ عمارتیں شدید زلزلوںمیں بھی کم نقصانات کا موجب بنتی ہیں۔
زلزلے کی طاقتور لہروں کے ساتھ ساتھ جاپان کی یہ آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں بھی لرزنااور حرکت کرنا شروع کر دیتی ہیں، مگر ان عمارتوں کو کسی قسم کا نقصان نہیں ہوتا ، جونہی زلزلہ ختم ہوتا ہے تو یہ عمارتیں بھی ”ناچنا“ بند کر دیتی ہیں۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا کمال نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمارا پاکستان بھی جاپان کی طرح مستقل طور پر زلزلوں کی قدرتی حدود کے اندر واقع ہے۔ پاکستان کے چوٹی کے سائنس دانوں کا ایک وفد جلد از جلد جاپان بھیجا جائے تاکہ وہ موقع پر جاپان کے کامیاب طریقوں کو دیکھ اور سمجھ سکیں کہ وہ کس طرح اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے زلزلوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ بھی ہمیں یاد رکھنا پڑے گا کہ جاپان دُنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں کی قطار میں کھڑا نظر آتا ہے۔ میرے نزدیک یہ ایک زندہ قوم کی نشانی ہے۔ ہمیں بھی کم ترین وقت میں جاپان کی مانند زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینا ہو گا، بدقسمتی سے ہمارے حکمران گہری نیند سو رہے ہیں۔ اس زلزلے کی شکل میں قدرت نے ہمیں جگانے کے لئے ایک قدم اٹھایا ہے۔ اگر ہم نہ جاگے تو آواران جیسے زلزلے آئندہ بھی ہمارے مقدر میں لکھے گئے ہیں۔ ہمارا پاکستان انتہائی خطرناک زلزلوں والی زمین پر واقع ہے۔ آئیں ہم سب مل کر اس آفت کا مقابلہ عقل و دانش سے کریں، جس طرح کہ جاپان اور دیگر ملک صدیوں سے کرتے آ رہے ہیں۔
ابھی تو ہماری قوم نے ”سائنس اور ٹیکنالوجی“ کی ”الف ب پ“ کے اسباق بھی یاد نہیں کئے ، ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر عبدالسلام وغیرہ جیسے سائنس دان پیدا کئے ہیں، مگر میرے نزدیک یہ کامیابی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہماری تمام درس گاہوں میں ابتدائی جماعتوں سے ہی ہر پاکستانی کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کو سیکھنا اور پڑھنا لازمی قرار دیا جائے، اِسی میں سب کی نجات ہے، میرا پختہ ایمان ہے کہ ایسا کرنے ہی سے پاکستان سے دہشت گردی اور تشدد پسندی کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔ جب تمام پڑھے لکھے نوجوانوں کو ان کی اہلیت اور قابلیت کے مطابق روز گار مل سکے گا، تو دہشت گردی خودبخود حرف ِ غلط کی طرح مٹ جائے گی۔
آئر لینڈ، سری لنکا اور بھارت وغیرہ نے اس میدان میں کامیاب تجربات کئے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے معاشرے کو سو فیصد پڑھا لکھا معاشرہ بنانا ہی پڑے گا۔ یہ کوئی ہم نیا کام نہیں کریں گے، بلکہ ساری مہذب دُنیا میں مدتوں سے یہ کام کئے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ میرے نزدیک چلنے کے لئے اور کوئی بھی راستہ مجھے نظر نہیں آتا ہے۔ اگر ہمارے امیر و کبیر حکمرانوں نے بے بس اور محروم طبقات کو پاکستان کی معاشی زندگی میں آباد نہ کیا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حق حکمرانی سے محروم ہو جائیں گے۔ امیر حکمران سچے دل اور انتہائی ایمانداری سے ٹیکس ادا کریں، وہ دن رات لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں لگ جائیں۔ پورے پاکستان میں ہر بے روز گار خاندان سے کم از کم ایک اہل فرد کو روزگار دینے کے اقدامات اٹھائیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ہمارے ہاں مسائل ہی مسائل ہیں اور وقت ہمارے پاس بہت ہی تھوڑا رہ گیا ہے، اس قلیل سی مدت میں ہی حکمرانوں نے قوم کے مسائل کو ایک ایک کر کے حل کرنا ہے، اس طرح کا کام کرنا بالکل ممکن ہے۔ شرط صرف اور صرف یہی ہے کہ ہم سب کی نیت صاف ہو اور دِل میں کسی قسم کا ہر گز کھوٹ نہ ہو۔ ٭