کارکنان کا معاشی قتل: اصل حقائق

کارکنان کا معاشی قتل: اصل حقائق

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’جماعت اسلامی کے ارکان کامعاشی قتل‘‘ کے عنوان سے مورخہ 9ستمبر2016 ء کوروزنامہ پاکستان میں میاں اشفاق انجم کا ایک کالم شائع ہوا، خیال تھا کہ ان سے بالمشافہ ملاقات میں اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے، لیکن معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ حج پر گئے ہوئے ہیں۔ اس عرصے میں مختلف قارئین اور احباب کی طرف سے اضطراب کا اظہار کیا جاتارہا، اس لئے یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں۔ میاں اشفاق انجم انسٹی ٹیوٹ کے پڑوس میں بستے ہیں اوربقول ان کے وہ اکثر نمازیں سید مودودیؒ انسٹی ٹیوٹ کی مسجد میں ادافرماتے ہیں۔ اگر یک طرفہ بات سن کر ان کا ڈھول بجادینے کے بجائے ادارے کی انتظامیہ سے مل کر تبادلہ خیال کرلیتے تو شاید ان کو اپنا کالم تحریر کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی اور نہ ہی قارئین بلاوجہ کے شکوک وشبہات کا شکار ہوتے۔ یہاں ترتیب وار چند نکات کی وضاحت کی جارہی ہے:


*۔ سیدمودودیؒ ایجوکیشنل ٹرسٹ محترم سید منور حسن کی اجازت اورمشورے سے وجود میںآیا تھا: جس کے سربراہ پروفیسر انیس احمد ہیں۔ٹرسٹ کے تابع درج ذیل چارادارے کام کررہے ہیں:
1۔ سیدمودودیؒ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ 2۔ منصورہ ڈگری کالج 3۔ اصلاح انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ 4۔ دارالقرآن۔
بعد ازاں ایک اعلیٰ سطحی انتظامی فیصلے کے مطابق اسلامک ایجوکیشن سوسائٹی کے زیر اہتمام چلنے والے ادارے پہلے سے مختلف انتظام کے تحت چلانے کا فیصلہ کیا گیا، تاکہ سب اداروں کو الگ الگ خصوصی توجہ سے آگے بھی بڑھایا جاسکے اور ان کا کوئی مالی بوجھ بھی مرکزی بیت المال پر نہ پڑے۔ اسی فیصلے کے تحت سوسائٹی اور سیدمودودی ؒ ایجوکیشنل ٹرسٹ کے مابین معاہدہ تجویز کرتے ہوئے اوپر مذکورہ ادارے ٹرسٹ کو منتقل ہوگئے ۔ اسلامک ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت جاری سابق سروسز ختم ہوگئیں اور تمام ملازمین کو گریجوایٹی دینے کا فیصلہ ہوا۔ مذکورہ اداروں کی تعلیمی بہتری اور فلاح ومعیار کو پیش نظررکھتے ہوئے ان اداروں کی مختلف اسامیوں کے لئے اخبارات میں اشتہاردیاگیا۔ ٹرسٹ نے ایک سلیکشن کمیٹی تشکیل دی، اب یہ کمیٹی مذکورہ اسامیوں کے لئے انٹرویو کررہی ہے ،جو کسی بھی ادارے کے لئے ایک بنیادی اور باقاعدہ عمل ہے، جس سے سب ملازمین کو گزرناہوتا ہے۔ یہاں ہر انتخاب میں میرٹ اور صلاحیت کو بھی ملحوظ رکھاجارہا ہے اور ادارے کا معیار اور مفاد ترجیحِ اول ہے:


*۔ سید مودودیؒ انسٹی ٹیوٹ میں تدریس وتحقیق حسب سابق جاری وساری ہے۔ ہر سال طلبہ داخلہ لیتے ہیں،تعلیم وتربیت کے بھرپور نظام سے گزرتے ہیں اور آخری سال تحقیقی مقالے لکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملکی حالات اور پالیسی کی وجہ سے غیرملکی طلبہ کے داخلے نہیں ہورہے، لیکن سندھ،بلوچستان ،خیبرپختونخوا، پنجاب اورکراچی تاکشمیر پورے ملک سے طلبہ داخلہ لے رہے ہیں اور استفادہ کررہے ہیں۔ ملک بھر کے طلبہ کو تعلیم دینے کے لئے عرب ممالک کی مختلف جامعات سے فارغ التحصیل اساتذہ طلبہ میں تعلیمی مہارت پیداکرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کردار سازی پر بھی بھرپور توجہ دیتے ہیں۔ اس واضح حقیقت کے باوجود میاں اشفاق انجم نے بھی لکھ دیا اور پہلے بھی ایک کالم نگار سے لکھوایا گیا کہ یہ انسٹیٹیوٹ ختم کردیا گیا۔


*۔ سید اسماعیل ہمارے اکاؤٹنٹ تھے، وہ ملٹری اکاؤنٹس میں ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہوئے، بعد ازاں ان کی خدمات اسلامک ایجوکیشن سوسائٹی کے سپرد رہیں۔ سوسائٹی سے ریٹائر ہوئے توان کی خدمات انسٹی ٹیوٹ کے لئے حاصل کی گئیں، جنہیں وہ آخری لمحے تک سرانجام دیتے رہے۔ ان کی زندگی میں انہیں سروس سے فارغ کرنے کاکوئی نوٹس نہیں دیاگیا۔ حیرت ہے کہ بعض احباب نے ان کی اچانک وفات بھی ادارے کے کسی نوٹس سے منسلک کردی۔


*۔ دارالقرآن میں مدرس،امام اورقاری کے لئے اشتہارکے نتیجے میں مختلف افراد نے درخواست دی اور درخواست دہندہ افرادمیں سے مطلوبہ اہلیت اور معیار کے مطابق سلیکشن بورڈ نے انتخاب کیا۔سیلکشن بورڈ میں نائب قیم جماعت حافظ ساجد انور ، ناظم شعبہ مساجد و مدارس مولانا محمد غیاث بھی شامل تھے اور اس بورڈ کی نظرمیں قاری آصف مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اتر سکے۔انہیں ان کی تمام تر خدمات کے اعتراف اور تمام قانونی مالی واجبات کے ساتھ معذرت کرلی گئی۔ الحمدللہ سامنے آبادی میں ہی ان کا ذاتی گھر موجود ہے اور ہم خود بھی ان کے لئے کسی جگہ متبادل انتظام کی تلاش میں ہیں۔ ان کی جگہ جو امام رکھے گئے ہیں، وہ الحمد للہ مدارس حرم مکی سے فارغ التحصیل ہیں۔ باعث افسوس امر یہ ہے کہ قاری آصف کی فراغت کے بہانے ادھر اُدھر اظہار مذمت کرنے والے کئی دوست خود بھی انہیں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کرچکے ہیں۔ نئے مقررکئے گئے مدرسین امام اورقاری حضرات کے مشاہرے کچھ نہ کچھ بہترکرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن کسی مدرس،قاری اورامام یہاں تک کہ ناظم دارالقرآن جو بغداد یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور بیرون ملک تعلیم وتدریس کا طویل تجربہ بھی رکھتے ہیں ،خودان کامشاہرہ بھی 25ہزار وپے ماہانہ نہیں ہے۔


*۔اسی طرح چوکیداروں کاانٹرویو ہوا۔ چوکیداری کے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے والے یا ملازمت کے قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر کچھ افراد کو فارغ کیاگیا جس میں علی گوہر کا نام بھی شامل ہے۔علی گوہر ہمارے دیرینہ ساتھی ہیں، ان کے جماعتی تعلق سے بھی انکارنہیں، لیکن اگر ایک چوکیداربغیر پیشگی اجازت لئے محض اطلاع دے کر 18دن لمبی چھٹی پر چلا جائے، بعد ازاں بغیر مزید اجازت کے گھر بیٹھے ہی آٹھ دس دن خودساختہ توسیع کرلے تو خودہی بتائیں کہ آج کے حالات میں اپنے گھر کے لئے انہیں یہ ذمہ داری کسی طرح دیں گے۔ اس غفلت پر کیا ایسا فرد قابل ستائش قرار پائے گا؟ مزید برآں چوکیدار حضرات میں سے یہ واحد ساتھی ہیں، جنہیں گھر بھی دیاگیا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ رات کی ڈیوٹی دینے سے انکاری ہیں۔ امام صاحب اورچوکیدار صاحب دونوں حضرات اپنی گریجوایٹی کے لئے درخواست دے چکے ہیں، جبکہ ادارے نے بھی ان کی گریجوایٹی ادا کرنے کی سفارش کردی ہے۔ ان شاء اللہ انہیں ان کے تمام مالی واجبات جلد ادا کردیئے جائیں گے۔


*۔اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قومی جامعات میں تدریس کا طویل تجربہ رکھنے والے قابل احترام اساتذہ ء کرام کے بارے میں ہمارے کالم نگار بھائی نے جس دیدہ دلیری سے غلط بیانی کا ارتکاب کیا ہے اس کا معاملہ اب وہ خود جانیں یا روزِ محشر ان کا رب جانے۔حقیقت یہ ہے کہ مختلف پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بڑی بڑی پیشکشوں کے باوجود یہ اساتذہ کرام، صرف ادارے کی تعمیرِنو اور اسے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کی شکل دینے کے لئے یہاں اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کررہے ہیں۔ ماشاء اللہ یہ سب اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں، ان کے لئے نہ تو کوئی گھر خالی کروایاجارہا ہے اورنہ کوئی ’’وقف ‘‘ ان کے حوالے کیاجارہا ہے۔


*۔سید مودودیؒ انسٹی ٹیوٹ سے ملحق دکانیں اوردفاتر سید مودودیؒ انسٹی ٹیوٹ کی فلاح وبہبود کے لئے ’’وقف ‘‘ہیں، جس کے معاملات مرکز اورانسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران مل کر چلاتے ہیں۔ یہ وقف دوکانیں قطعی طور پر نہ تو کسی کی ذاتی ملکیت ہیں اور نہ ہی اس میں کوئی فرد کسی طور پرغلط یا بے جاتصرف کرسکتا ہے۔ خود مرکز جماعت ہی ان سے کرایہ جمع کرتا ہے، البتہ ادارے کی انتظامیہ کی یہ کوشش ضرور ہے کہ جو دوکان دار ادارے کو اوسطاً صرف 4,3 ہزار روپے ماہانہ کرایہ ادا کرتے ہیں اور انہوں نے یہ دوکانیں پگڑی پر خریدی یا آگے فروخت کی ہوئی ہیں، انہیں آمادہ کیا جائے کہ وہ اس ’’وقف‘‘ کا حق ادا کریں۔ اگر ایسی ہی دوکان پڑوس میں 30 سے 40 ہزار روپے ماہانہ پر ہو تو ہمارے یہ دوست کیوں کر اتنا کم کرایہ ہی رکھنے پر مصر ہیں۔


ادارے کی انتظامیہ نے مختلفبرسوں اورمراحل میں ان ’’وقف املاک ‘‘ میں ہمیشہ سال بہ سال اپنی مدد آپ اورمخیرحضرات کے تعاون سے تعمیرات میں اضافہ کیا اور ہم اپنے ساتھیوں سے اُمید رکھتے ہیں کہ وہ بھی کسی غریب ساتھی کے کندھے پر بندوق رکھ کر پراپیگنڈہ مہم چلانے کے بجائے ادارے کی تعمیر و ترقی کے کارِ خیر کا حصہ بنیں گے،دنیا تو بالآخر یہیں رہ جانی ہے۔۔۔ اس وضاحت کے بعد بھی ہمارے بھائی کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو ہمارے دروازے ہر وقت ان کے لئے کھلے ہیں۔ یہ ادارے کسی فرد کی ملکیت نہیں ہیں، اس کے ذمہ داران اپنی آخرت کے لئے کوشاں ہیں اور ہمیں اسی جذبے سے سرشار اپنے تمام احباب سے تعاون کی اُمید ہے۔

مزید :

کالم -