بغیر بندرگاہ بلوچستان اور نادان قوم پرست

  بغیر بندرگاہ بلوچستان اور نادان قوم پرست
  بغیر بندرگاہ بلوچستان اور نادان قوم پرست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کوئی تعجب نہ کیجئے کہ بلوچستان کے اپنے ساحل پر بلوچستان کی کوئی ایک بندرگاہ نہیں ہے۔ اور یہ کہ گوادر کی طویل ساحلی پٹی سے صوبہ بلوچستان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس پر آگے چل کر بات ہوگی۔ پہلے قارئین کو یہ اطمینان دلانا اہم ہے کہ ملک کے کسی حصے کو کسی بیرونی طاقت سے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں بپا شورش کی پشت پر متعدد بیرونی عناصر ہیں۔ ریاست پاکستان ان عناصر سے واقف ہے اور ان سے بحسن و خوبی نمٹ رہی ہے۔ ہر چھوٹی بڑی شورش یا بدامنی کا بالآخر تعلق سی پیک سے جا ملتا ہے۔ کراچی اور گوادر تا ارومچی مجوزہ ریل روڈ منصوبہ وہ ڈراؤنا خواب ہے جس سے چند خلیجی اور خطے کے متعدد ممالک اور امریکہ کو اپنا اقتصادی اور تزویراتی (strategic) مستقبل دھندلاتا نظر آ رہا ہے۔ روسی نائب وزیر خارجہ اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ پاکستان کا دو روزہ دورہ مکمل کر چکے ہیں۔ تجارت اور اقتصادیات کے علاوہ باہمی بات چیت کا ایک اہم نکتہ پاک روس ریل روڈ منصوبہ بھی رہا۔

دوسری طرف نئے چینی وزیراعظم پاکستان کے پہلے دورے پر 15 اکتوبر کو آرہے ہیں۔ چین جیسی اہم پڑوسی اور مضبوط اقتصادی طاقت کے وزیراعظم کے تین روزہ متوقع دورے نے بھارت، اسرائیل، امریکہ اور دو ایک خلیجی ممالک میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ یہی وہ ممالک ہیں جو کچھ نہ کر سکیں تو اپنے مقامی سیاسی و دیگر کارندوں کے ذریعے پاکستان میں افرا تفری اور بدامنی بآسانی پیدا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ کچے کے ڈاکو ہوں، یا بلوچستان میں بدامنی، خیبر میں دہشت گردی ہو یا شاہراہ ریشم پر چینی انجینئروں کا قتل، یہ سب کچھ پاکستان کی اقتصادی و تزویراتی انگڑائی کا رد عمل ہے۔ اس کا خاموش اور بعض صورتوں میں صریح فیصلہ ریاست، وفاق، مقتدرہ اور تحریک انصاف کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتیں کر چکی ہیں۔ چینی وزیراعظم کے اسی دورے میں 1726 کلومیٹر طویل ایم ایل ون ریلوے منصوبے پر دستخط کا امکان بھی ہے۔ اسی دورے کے موقع پر اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس بھی ہو رہا ہے۔ یہ ہوشربا ہنگامہ ہائے اقتصاد ایسے نہیں کہ جنہیں خطے اور خلیج کے پاکستان دشمن ممالک و عناصر بآسانی نظر انداز کر دیں۔

ویسے تو پاکستان کا ہر انچ عوام کی ملکیت ہے لیکن یہ ملکیت سیاسی و انتظامی تقسیم کے مطابق ہوا کرتی ہے۔ مثلاً صوبہ سندھ کا ہر انچ اگر پاکستانی عوام کی ملکیت ہے تو عملاً اس پر حکومت سندھ کا تصرف ہے۔ اس پیچیدہ موضوع کو چھوڑ کر گوادر کی طرف آتے ہیں۔ آزادی سے قبل موجودہ بلوچستان مختلف انواع کے خطوں میں بٹا ہوا تھا۔ تحفتاً دیا گیا گوادر اٹھارویں صدی سے سلطان آف مسقط کے زیر تسلط (suzreinty) رہا.اسے ستمبر1958میں ہمارے دور اندیش وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے نو ماہ مسلسل خاموشی سے کام کر کے مسقط سے خریدا اور پاکستان کا حصہ بنایا۔ غالباََ اسی جرم کی پاداش میں صرف ایک ماہ بعد ملک صاحب کو معزول کر کے مزید 20 دن بعد ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ یہ کچھ نہ ہوتا تو ملک صاحب کے ذہن میں گوادر کے مستقبل کا یقیناَ کوئی نقشہ  ہوگا جو روبہ عمل نہ آ سکا۔ بار بار کہنا پڑتا ہے کہ ملک کے بیشتر مسائل کے ذمہ دار آئین شکن جرنیل ہی رہے ہیں۔ دعا کریں اب یہ کوئی اور مہم جوئی نہ کر بیٹھیں۔ مذکورہ بالا معنوں میں گوادر کا بلوچستان سے یوں تعلق نہیں ہے کہ اسے وفاق نے ایک خود مختار ملک سے قیمتاً خریدا تھا۔ لہذا ملک کا یہ حصہ وفاق یعنی چترال سے کراچی تا گوادر تک تمام پاکستانی عوام کی خصوصی قسم کی ملکیت میں ہے۔

بلوچستان کے مٹھی بھر کامریڈ قوم پرست خاطر جمع رکھیں، وہ اپنی نام نہاد آزادیِ کی نامعقول جدوجہد جاری رکھیں، ہمارے بلوچ بھائیوں کے خلاف بھلے ہتھیار بند بھی رہیں، لیکن یہ سمجھ لیں کہ کسی انتظامی ضرورت کے تحت گوادر کی اس طویل ساحلی پٹی کی طرف اگر کبھی وفاق متوجہ ہو گیا یا اس نے گوادر کو اپنے انتظام میں لے لیا تو حکومت بلوچستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ یوں بلوچستان کے پاس لسبیلہ کا مختصر سا اجاڑ، چٹیل اور بیابان ساحل باقی رہے گا۔ یکم جولائی 1977 ء کو وفاق نے جس طرح گوادر کو بلوچستان کے حیطہ عمل میں دیا تھا، ویسے ہی وہ اپنی یہ ملکیت واپس بھی لے سکتا ہے، بھلے گوادر کے تمام پاکستانی باشندوں کو یہ فیصلہ پسند آئے یا نہ آئے۔

1898 ء میں برطانیہ نے چین کے ایک حصے ہانگ کانگ کو 99 سالہ پٹے پر لیا تھا۔ 90 کی دہائی میں ایک طرف چین کی دھول اڑاتی اور ٹریفک سگنل سے خالی سڑکیں تھیں تو دوسری طرف چار ایشیائی اقتصادی ٹائیگروں میں سے ایک ہانگ کانگ تھا۔ اس کی آبادی کا غالب حصہ 1997 میں برطانوی اقتدار کے خاتمے پر بطور خود مختار ملک رہنا چاہتا تھا۔ آبادی کی خواہشات کو نظر انداز کرتے ہوئے پٹے کی مدت ختم ہوتے ہی ہانگ کانگ دوبارہ چینی اقتدار اعلیٰ کی چھتری تلے آ گیا۔ رہا گوادر تو اسے پاکستان نے نہ تو پٹے پر لیا تھا اور نہ یہ کسی قبضے کا موضوع ہے۔ وفاق نے جس طرح زمین کا یہ ٹکڑا یکم جولائی 77 کو بلوچستان کے حوالے کیا تھا ویسے ہی اسے واپس وفاقی تحویل میں پھر لیا جا سکتا ہے۔

اب آئیے بلوچستان میں شورش اور بد امنی کی طرف۔ ہمت کر کے ہمیں اس مسئلے سے ذرا احتیاط سے نمٹنا ہے۔ ایک اور طرح کی بدامنی سندھ کے کراچی اور کچے میں، اور پنجاب کے جنوبی اضلاع میں بھی موجود ہے۔ شمال میں شاہراہِ ریشم اور سوات تا ڈیرہ اسماعیل خان میں الگ طرح کی بد امنی ہے۔ بلوچستان اور خیبر میں بلا شبہ مقامی سطح کے توجہ طلب مسائل موجود ہیں لیکن ان سب کا منبع بہت بڑی حد تک سی پیک سے جڑا ہے۔ سی پیک، پاک چین تعلقات اور پاک روس تعلقات کے ذرا نکھرنے ابھرنے پر کامریڈ بلوچوں،کچے کے ڈاکوؤں اور خیبر کے باغیوں کو راہ فرار نہیں ملے گی۔ بلوچستان سمیت ملک کے تمام حصوں کے لوگ اول آخر پاکستانی کہلاتے ہیں۔ وفاق، مقتدرہ اور عوام کو ذرا ہمت، صبر اور تحمل سے ان گمبھیر حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ آئے دنوں میں اپنا یہ اسلامی جمہوریہ کس شکل میں ہوگا، اس کی نوعیت ہنگری کے وزیر خارجہ وکٹر اورین سے سنیے اور اپنے اپ پر اعتماد کیجئے:  "مستقبل میں پاکستان عالمی طاقتوں میں شامل ہوگا" (روزنامہ جنگ 24 جولائی 2024)۔  یہی وہ اسلامی جمہوریہ ہے جو دل شیطان میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے (باقی آئندہ)

مزید :

رائے -کالم -