کچھ جاسوسوں کے بارے میں
آپ نے 1977میں بنی انگلش مووی ’’سپائی ہُو لوڈ می‘‘تو دیکھی ہو گی۔ نہیں دیکھی تو دیکھئے۔ یہ بانڈ فلم ایک جاسوس (جیمزبانڈ) کے بارے میں ہے‘ جو کے جی بی کی ایجنٹ میجر آنیا ایمازوف(Barbara Bach)کے ساتھ مل کر برطانیہ اور روس کی ان آبدوزوں کا سراغ لگاتا ہے‘ جن پر ایٹمی ہتھیار لدے ہوئے تھے اور جو پٹرولنگ کے دوران اچانک غائب ہو گئی تھیں۔ یہ پہلی فلم نہیں تھی‘ جس میں جاسوسی کو موضوع بنایا گیا۔ بانڈ فلموں کی تو ایک پوری سیریز چلی اور اس سلسلے کی فلمیں اب بھی بن رہی ہیں۔ دی سم آف آل افیئرز‘ نو وے آؤٹ‘ کوڈ نیم وائلڈ گیز‘مشن امپوسیبل ون ٹو تھری اور غالباً فور۔جاسوسی کے موضوع پر کتنی ہی فلمیں بنیں اور اس سے زیاہ ناول لکھے گئے‘ خصوصی طور پر انگریزی زبان میں‘ اور ان میں سے کچھ کے اردو میں ترجمے بھی ہوئے۔
پاکستان میں جاسوسی ناولوں کے حوالے سے ابن صفی اور مظہر کلیم ایم اے کا نام کون بھول سکتا ہے۔ بچوں کے لیے اشتیاق احمد نے خاصا کام کیا۔ انگریزی زبان کے کچھ معروف ناولوں کے نام یہ ہیں۔ دی میسنجر(ڈینیئل سلوا)‘ اے موسٹ وانٹڈ مین (جان لی کرر)‘ گولڈ فنگر (ایان فلیمنگ)‘ دی سپائیز آف وارسا (ایلن فُرسٹ)‘ سپائی سٹوری (لِن ڈئیٹو)‘ دی ٹیلر آف پاناما (جان لی کرر)‘ کیسینو رائل (ایان فلیمنگ)‘ دی ٹیئرز آف آٹم (چارلس میک کیری)‘ دی کارڈینل آف دی کریملن (ٹام کلانسی)۔ پھر ہم عام زندگی میں بھی سنتے رہتے ہیں کہ فلاں ملک کا جاسوس فلاں ملک میں پکڑا گیا جیسے گزشتہ برس کلبھوشن یادیو بلوچستان سے پکڑا گیا ‘ جسے حال ہی میں پھانسی کی سزا سنائی گئی ‘ جس پر بھارت تلملا رہا ہے۔ جب کلبھوشن پکڑا گیا تھا تو بھارتی حکام نے قرار دیا تھا کہ وہ اسے نہیں جانتے۔ اب جبکہ اسے پھانسی کی سنائی گئی ہے تو بھارت کی یادداشت کسی فلمی اداکارکی طرح اچانک لوٹ آئی ہے اور بھارتی وزیر داخلہ سشما سوارج نے کلبھوشن کو بھارت کا بیٹا قرار دیا ہے‘ دوسرے لفظوں میں تسلیم کر لیا ہے کہ کلبھوشن جاسوس ہی تھا اور اسے انہی مقاصد کے لئے پاکستان بھیجا گیا تھا‘ جن کا اعتراف کلبھوشن نے گرفتاری کے بعد اپنے اعترافی بیان میں کیا تھا۔ یہ اس امر کی تصدیق ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی بڑھانے کے لیے پوری طرح سرگرم ہے۔
ابھی دو روز پہلے ہی رینجرز نے آپریشن ردالفساد کے تحت ایک کارروائی میں کراچی سے پانچ دہشت گرد پکڑے‘ جو دہشت گردی کی کسی بڑی واردات کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا ہے کہ پانچوں کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی سے ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی را اکیلی نہیں بلکہ پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے میں افغان انٹیلی جنس بھی اس کے ساتھ مصروف کار ہے۔ بلاشبہ اس سازش کو فرو کرنے کے لئے حکومت کو کچھ کرنا چاہئے۔
کلبھوشن پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کو ہوا دینے کے لئے بھارتی جاسوسی کا پہلا معاملہ نہیں‘ اس سے پہلے بھی کئی بار بھارتی جاسوس پکڑے جا چکے ہیں‘ جیسے رویندر کوشک‘ سربجیت سنگھ‘ کشمیر سنگھ‘ شیخ شمیم اور کچھ دوسرے۔
ہر پیشے کا اپنا ایک تقاضاہوتا ہے۔ کسان چلچلاتی دھوپ میں زمین میں ہل چلاتا‘ بیج بوتا ہے اور پھر سب کچھ قدرت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ کوہکن قبر کے اندھیروں جیسی تاریک کانوں میں محنت سے اپنا روزگار کماتا ہے۔ اور ریڑھی بان سارا دن گلیوں اور محلوں میں ریڑھی گھسیٹتا ‘ آوزیں لگاتا اور بال بچوں کے لئے کچھ کمانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح جاسوسی بھی ایک پیشہ ہے اور غالباً دنیا کا سب سے عجیب اور سب سے زیاددہ خطرناک پیشہ۔ جاسوسی کے لئے روانہ ہونے والے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جس مشن پر وہ روانہ ہو رہا ہے‘وہاں سے اسے واپسی نصیب ہو گی یا نہیں یا آگے جا کر اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جنہیں ہم جاسوس کہتے ہیں‘ چلتے پھرتے روبوٹ ہوتے ہیں۔ ایک مقصد ایک ڈائریکشن کے تابع چلتے ہیں۔برسوں دشمن ملک میں وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر زندگی گزارتے ہیں۔ کسی مسلم ملک میں ہیں تو مسلمان بن رہتے ہیں اور پانچ نمازیں پڑھنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور اپنے دیوی دیوتاؤں کی پوجا رات کے اندھیروں میں کرتے ہیں اگر کسی ہندو ملک میں ہیں تو ہندو عام آدمی یا پروہت کا بھیس بدل کر رہتے ہیں۔مندروں میں بھی انہیں جانا پڑتا ہے اور دیوی دیوتاؤں کی بوچا کا سوانگ بھی بھرنا ہوتا ہے۔ بھارتی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت کمار ڈوول کا یہ کلپ یو ٹیوب پر موجود ہے کہ وہ سات سال تک جاسوس بن کر لاہور میں رہا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ مسجد بھی جاتا تھا۔ اس کے اپنے الفاط یہ ہیں’’ ایک روز میں ایک ولی اللہ کے مزار پر بیٹھا ہوا تھا تو ایک آدمی‘ جس کی سفید لمبی داڑھی تھی‘نے مجھے اپنے پاس بلایا اور پوچھا: تم ہندو ہو؟ ‘‘
میں نے کہا’’ نہیں‘‘
اس نے کہا’’ تم میرے ساتھ آؤ‘‘ میں اس کے ساتھ چل پڑا۔وہ مجھے اس مزار سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا اور کہا’’ دیکھو تم ہندو ہو! ‘‘
میں نے کہا’’ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ‘‘
’’اس لئے کہ تمہارے کان چھدے ہوئے ہیں‘‘ میں بھارت میں جہاں کا رہنے والا ہوں وہاں روایت ہے کہ پیدا ہونے کے کچھ عرصے بعد بچے کے کان چھید دئے جاتے ہیں۔میں نے بہانا کیا ’’ میں نے بعد میں مذہب تبدیل کیا‘‘۔ اس نے کہا ’’ تم نے بعد میں بھی مذہب تبدیل نہیں کیا‘ بہتر ہے کہ اس کی پلاسٹک سرجری کروا لو‘ اس طرح سے گھومنا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’ٹھیک ہے کرا لوں گا’’ پھر اس نے کہا’’ پوچھو گے نہیں کہ میں نے ایسا کیوں کہا؟‘‘
میں نے پوچھا’’کیوں کہا؟ ‘‘ انہوں نے جواب دیا’’ اس لئے کہ میں بھی ہندو ہوں‘‘پھر اس باریش آدمی نے ایک الماری کھولی اور اس میں پڑی ہوئی مورتیاں دکھائیں اور کہا’’ اصل میں ‘ میں ان کی پوجا کرتا ہوں‘‘ کیا ہمیں اپنی آنکھیں کھول کے نہیں رکھنی چاہئیں؟ اب بھی پتا نہیں ہمارے ارد گرد کتنے جاسوس موجود ہوں۔
پچھلے دنوں ایک دوست بتا رہا تھا کہ جاسوس صرف دشمن ممالک ہی ایک دوسرے کے ہاں نہیں بھیجتے بلکہ دوست ممالک بھی ایک دوسرے کی جاسوسی کرتے اور کراتے ہیں۔اسرائیل اور امریکہ ایک دوسرے کے دوست ممالک ہیں۔ جتنی مالی امداد امریکہ اسرائیل کی کرتا ہے‘ کوئی اور ملک اتنی نہیں کرتا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف پیش کردہ قرراردادوں کو جتنی بار امریکہ نے ویٹو کیا‘ کسی اور ملک نے نہیں کیا۔اس سارے جانب دارانہ محبت اور تعلق کے باوجود اسرائیل اور امریکہ ایک دوسرے کی جاسوسی کرتے ہیں اور اگر ان میں سے کسی کا بھیجا گیا جاسوس گرفتار کر لیا جائے تو اسے سزا دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ایک دوسرے کے دشمن ملکوں میں تو یہ سلسلہ وافر چلتا ہے۔(جاری)
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔