اْن کی دردمندی اور روشنی خیالی فرد سے اجتماع کی طرف سفر کرتی ہے،جلوت اور خلوت میں پاکستان کے مستقبل کیلیے بے چین نظر آتے ہیں

مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط:16
18 فروری 2007ء کے روزنامہ”جہاں نما“ میں سٹیزن کونسل کے لائحہ عمل کے مسودے پر بحث کرتے ہوئے جناب ظفر علی راجا نے اس دستاویز کو قرطاسِ بصیرت کا نام دیا جس سے نئی سوچوں کے چراغ روشن ہونگے اور رانا امیر احمد خاں کی سربراہی میں معاشرے میں عدالتوں میں بہتری پیدا کرنے کے لیے تھنک ٹینکس قائم کر کے تمام امور پر سفارشات مرتب ہو کر میڈیا کے ذریعے قوم کی فکری رہنمائی کے نئے راستے کھلیں گے۔
15 مارچ 2007ء کو روزنامہ”اوصاف“ میں سرفراز سید لکھتے ہیں کہ سٹیزن کونسل سینئر قانون دانوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی معروف تنظیم ہے جو مختلف قومی مسائل اور آئینی امور پر مشاورتی خدمات سرانجام دیتی ہے۔
2 مارچ 2014ء کو روزنامہ”پاکستان“ میں ڈاکٹر شفیق جالندھری لکھتے ہیں کہ سٹیزن کونسل کے صدر رانا امیر احمد خاں اور سیکرٹری جنرل ظفر علی راجا ملک کے بہت سے اہم دانشوروں کے ساتھ مل کر ملک میں حقیقی تبدیلی لانے کے لیے سرگرم ہیں اور اپنی باقاعدہ فکری نشستوں کے علاوہ اہم قومی مسائل پر سیمینارز کا اہتمام کرتے ہیں بقول رانا امیر احمد خاں قیادت کا یہ کام ہے کہ قوم کو عزت و وقار کے راستے پر لے کر چلے اور قوم کے دانشور طبقے پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کی راہنمائی کے لیے آگے آئے۔
معروف شاعر نذیر قیصر لکھتے ہیں کہ رانا امیر احمد خاں نہ صرف درد مند دل رکھتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ وہ ایک روشن دماغ دانشور بھی ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنی ذات سے بلند ہو کر سوچتے ہیں۔ اْن کی یہ دردمندی اور روشنی خیالی فرد سے اجتماع کی طرف سفر کرتی ہے۔ وہ جلوت اور خلوت میں پاکستان کے ماضی اور حال سے پریشان اورمستقبل کے لیے بے چین نظر آتے ہیں اور اپنے ملک، اس کی تہذیب اور عوام کے لیے اچھے خواب دیکھتے ہیں اور اْن خوابوں میں اپنے جیسے دوسرے دردمند دل رکھنے والوں کو بھی شریک کرتے رہتے ہیں۔
معزز خواتین و حضرات یہ چند اخباری تراشوں کا حوالہ ہے حالانکہ وطنِ عزیز میں چھپنے والے بے شمار اخبارات اور رسائل میں بھی سٹیزن کونسل کی قومی خدمات کا ذکر کیا گیا ہے جن تک راقم الحروف بوجہ وسائل حاصل نہیں کر سکا۔ اگر کہیں یہی باتیں میں نے اپنی طرف سے کی ہوتیں تو شاید یہ مبالغہ آرائی اور ستائش آفرینی کے زمرے میں شمار کی جاتیں لیکن میڈیا میں چھپنے والے ان ناقابلِ تردید ریمارکس کے بعد میں رانا امیر احمد خاں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے صرف یہی کہہ سکتا ہوں اور چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی۔
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
پروفیسر نصیر احمد چوہدری
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔