بیگم نصرت بھٹو کہاں گئیں؟؟؟
نصرت بھٹو کہاں گئیں لکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی نئی نصرت بھٹو پیدا ہوئی تھیں اور وہ اچانک کہیں غائب ہوگئی ہیں۔ یہ انہی پرانی نصرت بھٹو کا آج پھر دوبارہ ذکر آیا ہے جو آج سے 13 سال پہلے 23 اکتوبر 2011ء کو اِس دنیا سے کوچ کر گئی تھیں، لیکن مجھے اب لگ رہا ہے کہ ان کا وہ کوچ مکمل ہو گیا ہے کہ آج پیپلز پارٹی کے جیالوں اور ان رہنماؤں کو جو نصرت بھٹو اور بھٹو کی خاندان کی بدولت وزیراعظم، گورنر پنجاب، اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی سربراہ، پارٹی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیراعظم کے بیٹے نہیں بھٹو کا ورکر ہونے کی بدولت اراکین اسمبلی بننے کا اعزاز حاصل کیا،انہیں شرم نہیں آئی کہ جس فلیکس پر وہ اپنی تصویریں چھاپ رہے ہیں وہاں اوپر بھٹو خاندان کی تصویروں میں محترمہ نصرت بھٹو کی تصویر غائب ہے۔ وہ جیالے جو روزانہ گورنر ہاؤس لاہور کے گیٹ کے باہر سے گزرتے ہیں کیا ان کو نظر نہیں آتا کہ ان کی ”مادرِ مہربان“ جی جس کو وہ ماں کہا کرتے تھے، فلیکس پر موجود ہی نہیں ہے اور وہ لوگ جو گورنر ہاؤس کے اندر اپنی بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر جاتے ہیں (ان میں سے اکثر کے پاس یہ بڑی بڑی لینڈ کروزر بھٹو خاندان کی وجہ سے ہی ہیں) کیا اُنہیں اپنی گاڑیوں کے کالے شیشوں میں سے نظر نہیں آیا کہ نصرت بھٹو ان ”چار فلیکسوں“ سے غائب ہیں جو چیئرمین بلاول بھٹو اور گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کی بڑی تصاویر کے ساتھ گورنر ہاؤس کی دیوار پر آویزاں کئے گئے ہیں۔ ان فلیکسوں پر اوپر چھوٹی چھوٹی تصاویر میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، صدرِ مملکت آصف زرداری، محترمہ بینظیر بھٹو، آصفہ بھٹو، وائس چیئرمین پی پی پی اور چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی کی تصاویر موجود ہیں۔ ایک طرف بڑی سی تصویر میں بلاول بھٹو اور دوسری طرف گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر رات کو بھی تیز روشنیوں میں دور سے بھی نظر آتے ہیں۔ان تصاویر کے بیچ میں پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے ”شیر جوانوں“ کی تصویریں ہیں، لیکن نصرت بھٹو بلکہ وہ نصرت بھٹو جس نے بھٹو کی پھانسی سے پہلے اور بعد میں اس وقت کے آمر مطلق، ظالم ترین حکمران جنرل ضیاء الحق کے خلاف ”علم ِ بغاوت بلند کیا اور تلوار اُٹھائی“ میدان میں نکلیں، ماریں کھائیں، قید کاٹی، وہ جو بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کی پہلی چیئرپرسن بنیں اور چار سال اس عہدے پر فائز رہیں وہ ”فلیکس پر کہیں نہیں“ ہیں، آخر وہ کہاں گئیں؟ چار سال چیئرپرسن رہنے کے بعد نصرت بھٹو نے بوجہ کینسر اپنا عہدہ اپنی بیٹی کو دیدیا تھا۔ وہ نصرت بھٹو جس کو میں نے قذافی سٹیڈیم کے دروازے پر ”پھٹے سر اور بہتے خون“ کے باوجود بہادری کے ساتھ کھڑے ہو کر نعرے لگاتے اور اپنے جیالوں کو آگے بڑھنے کا اشارہ کرتے دیکھا تھا، اس کی تصویر غائب ہو گئی۔وہ نصرت بھٹو جس نے سندھ کے طاقتور ترین وزیراعلیٰ جام صادق کو ”ہیلو ممی“ کہنے پر ”یس باسٹرڈ“ کہا تھا، وہ طاقتور خاتون نصرت بھٹو کہاں گئی؟ اسے کہاں بھیج دیا گیا؟آخر جیالے اس ”ماں“ کو کیوں اور کیسے بھول گئے؟ آج پیپلز پارٹی کے ساتھ پنجاب میں جو ہو رہا ہے اب تو لگتا ہے ٹھیک ہورہا ہے، اپنے بزرگوں کو بھولنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔یاد رکھیں ہم بھی قائداعظم محمد علی جناحؒ کو بھولتے جا رہے ہیں، کوئی شرم ہمیں بھی آنی چاہئے۔ قائداعظم اور ان کے سپاہیوں کو بھولنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ”اپنے بڑوں“ کو بھولنے والی قومیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں،کیونکہ جو راستہ بڑے متعین کرگئے ہوتے ہیں وہی صحیح ہوتے ہیں۔ ہمارے نبیؐ نے ہمیں جو راستہ دکھایا تھا ہم جہاں جہاں اس سے بھٹکے ہم تباہ و برباد ہوئے، کیونکہ نبیؐ کا راستہ اللہ کا بتایا راستہ تھا۔
نصرت بھٹو ہماری طرح پیدائشی پاکستانی نہیں تھیں۔ وہ ایرانی نژاد تھیں، انکے والد کا تعلق ایرانی شہر اصفہان سے تھا اور وہ اس حوالے سے نصرت اصفہانی کہلاتی تھیں۔ ان کی ایک کزن ناہید اصفہانی پاکستان کے ایک سول ڈکٹیٹر سکندر مرزا کی اہلیہ تھیں اور ان کے رابطے، واسطے اور حوالے سے ہی نصرت بھٹو کی شادی ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی اور پھر وہ پاکستان کی سیاست میں اپنے شوہر ذوالفقار علی بھٹو کے ذریعے داخل ہوئیں۔ نصرت بھٹو دو دفعہ اس ملک کی خاتون اول رہیں۔ وہ پہلے صدر ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ کے طور پر اور پھر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ کے طور پر خاتون اوّل رہیں، لیکن وہ بدقسمت خاتون تھیں، ان کے چار بچے تھے جن میں بینظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو اور صنم بھٹو شامل تھے، لیکن اس بدقسمت خاتون کو اپنی زندگی میں اپنے شوہر اور اپنے دو جوان بیٹوں کی غیرفطری موت برداشت کرنا پڑی۔پہلے ان کے شوہر کو جنرل ضیاء الحق نے پاکستانی عدلیہ کی مدد سے پھانسی دی، پھر ان کے ایک بیٹے شاہنواز کو 1979ء میں، یعنی اپنے باپ کی موت کے کچھ ہی عرصہ بعد فرانس میں زہر دیا گیا، پھر انکا بڑا بیٹا مرتضیٰ بھٹو 1996ء میں اپنی بہن کی وزارت عظمیٰ کے دور میں کراچی میں ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا جس کا الزام اس وقت کے ”مرد اوّل“ اور ان کے داماد آصف علی زرداری پر بڑے عرصے تک لگایا جاتا رہا، بلکہ کچھ لوگ تو شاید آج بھی لگاتے ہیں۔ بیگم نصرت بھٹو اپنے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کی موت کے بعد ”الزائمر“ کا شکار ہوئیں اور اس کے بعد انہوں نے دنیا سے کنارہ کشی کرلی۔وہ اپنے نواسے، نواسیوں کے ساتھ دبئی میں رہائش پذیر رہیں، انہوں نے پاکستان کے لئے بہت کچھ کیا، وہ پاکستان کی سینئر وزیر بھی رہیں، ایم این اے بھی رہیں، جس پارٹی کے لئے سب کچھ کیا آج وہ پارٹی انہیں یاد نہیں رکھنا چاہتی۔ شاید آج اس پارٹی کے لئے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ہے سیاست کا المیہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل، آپ نے دنیا چھوڑی ہم نے آپکو چھوڑا۔
بیگم نصرت بھٹو کی تصویر کو بھولنے والوں کی صف میں پہلا نام جناب راجہ پرویز اشرف کا ہے جو سابق وزیراعظم ہیں اور کمشنر راولپنڈی کے مطابق وہ ”فارم 47 والے ایم این اے“ ہیں۔ دوسرا نام بلکہ بیحد اہم نام پنجاب کے طاقتور ترین سابق ایم پی اے حسن مرتضیٰ کا ہے جو ”پنجاب میں پارٹی کو سنبھالے“ ہوئے ہیں، پھر ایڈون سہوترا صاحب ہیں، ایک ایسا نام ہے جس کو لیتے ہوئے مجھے شرم آرہی ہے۔ وہ جن کو بلاول بھٹو کی دوستی کا دعویٰ بھی ہے وہ بھی بلاول بھٹو کی نانی کو بھول گئے ہیں اور وہ ہیں سابق وزیراعظم، پارٹی کے وائس چیئرمین، چیئرمین سینٹ جناب یوسف رضا گیلانی کے فرزند علی حیدر گیلانی جو خود تو ایم پی اے ہیں، لیکن ان کے تین بھائی ایم این اے ہیں، والد سینیٹر اور چیئرمین سینٹ ہیں۔ یہ وہ لوگ جن کو سب کچھ نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو، بلاول بھٹو اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے طفیل میں ملا ہے، وہ جن کے گھر میں پانچ عہدے ہیں، چیئرمین سینٹ صدرِ مملکت کے بعد ملک کا سب سے بڑا عہدہ ہے اور وہ یہ بھول جائیں کہ نصرت بھٹو بھی ”کوئی خاتون تھی“۔ یاد رکھو بھولنے والو بہت جلد لوگ تمہیں بھول جائیں گے، میں نہیں جانتا یہ سچ یا جھوٹ ہے، تو بہت جلد تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
٭٭٭٭٭