پی ٹی آئی، پی ٹی آئی سے مخاطب

           پی ٹی آئی، پی ٹی آئی سے مخاطب
           پی ٹی آئی، پی ٹی آئی سے مخاطب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ان دنوں پی ٹی آئی، پی ٹی آئی سے مخاطب ہے۔ حکومت اس کا نوٹس لے رہی ہے نہ اسٹیبلشمنٹ، جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو وہ بھی پی ٹی آئی سے لاتعلق نظر آتی ہے۔ چنانچہ پی ٹی آئی نے اپنے فالوئرز کو مصروف رکھنے کا صحیح بہانہ ڈھونڈا ہے کہ اس نے خود سے باتیں شروع کر دی ہیں۔ خودکلامی کا آغاز عمران خان کے آرمی چیف کے نام خیالی خط سے ہوا۔ پہلے ایک خط کا دعویٰ کیا گیا، پھر دوسرے کا اور اب تیسرے خط کا دعویٰ کیا گیا ہے مگر آرمی چیف کے ایک بیان نے پی ٹی آئی فالوئرز کی امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ انہیں ایسا کوئی خط نہیں ملا  اور اگر ملا ہوتا تو انہیں اس کو پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی اور اگر ملے گا تو وزیر اعظم کو بھجوادیں گے۔ اس ایک بیان نے پی ٹی آئی کو دوبارہ سے وہیں لا کھڑا کیا ہے، جہاں سے چلی تھی۔ ان خطوط کے حوالے سے فضا میں موجود ساری گرمی ہوا ہو گئی وگرنہ ادھر خط کا تذکرہ ہوا اور ادھر پی ٹی آئی نواز اینکر پرسنوں نے طوفان بدتمیزی برپا کردیا کہ پتہ نہیں پاکستان میں کون سی قیامت آگئی ہے کہ عمران خان نے آرمی چیف کو خط لکھ دیا ہے، کچھ کا تو کہنا تھا کہ یہ خط نہیں عمران خان کی جانب سے چارج شیٹ ہے۔ گویا کہ ان کے نزدیک ابھی بھی عمران خان ڈکٹیٹنگ پوزیشن میں ہیں اور جسے چاہے سنا سکتے ہیں۔ 

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دنوں ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز سے نون لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت اپوزیشن کی تمام جماعتیں غائب ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی اینکر پرسن پی ٹی آئی کے سیاستدانوں کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ  پی ٹی آئی، پی ٹی آئی سے ہی مخاطب ہے۔ زیادہ سے زیادہ دو چار ایسے صحافیوں کو اکٹھا کرلیا جاتا ہے جو پی ٹی آئی کا بیانیہ آگے بڑھانے کی صحافت کے علاوہ دن بھر اور کچھ نہیں کرتے۔ عمومی طور پر ٹاک شوز کا فارمیٹ ہوتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے امتزاج سے پروگرام کو آگے بڑھایا جاتا ہے مگر اول تو پی ٹی آئی کو سبکی سے بچانے کے لئے اگر حکومت کے کسی نمائندے کو لینا بھی ہوتو اسے علیحدہ سے لیا جاتا ہے تاکہ پی ٹی آئی کے جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لئے کوئی موجود نہ ہو۔ دوسری جانب جب حکومتی بنچوں سے کوئی ان پروگراموں میں آجاتا ہے تو اسے بولنے کا موقع کم ہی ملتا ہے کیونکہ اینکر پرسن اور پی ٹی آئی کے سیاستدان انہیں بیچ بیچ میں ٹوکتے رہتے ہیں تاکہ وہ مومینٹم نہ پکڑ سکیں۔ ایک پروگرام میں نون لیگ کے ایک سیاستدان نے مہر بخاری سے پوچھا کہ پروگرام کی اینکر وہ ہیں یا  شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی ہیں۔ 

خیر جب عمران خان کے خطوط کو عوام نے بھی خاص توجہ نہ دی تو شیر افضل مروت کا شوشا چھوڑ دیا گیا کہ انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا ہے جس پر وہ اسمبلی میں کھڑے ہو کر پوچھتے پائے گئے کہ مجھے کیوں نکالا اور پھر اپنا موازنہ نواز شریف سے کر تے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنرل باجوہ اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی لپیٹ گئے کہ ان دونوں نے نواز شریف کو اقتدار سے نکالا تھا مگر وہ اس بات کا تذکرہ کرنا بھول گئے کہ جب جنرل باجوہ اور ثاقب نثار نواز شریف کو اقتدار بدر کر رہے تھے، عمران خان نے دھرنوں سے لے کر چور ڈاکو کا منترہ شروع کیا ہوا تھا۔ لیکن شیر افضل مروت سمجھے کہ لوگ یہ بات بھول گئے ہیں، اسی لئے خالی جنرل باجوہ اور ثاقب نثار کو کوستے رہے۔ البتہ یہ بات قابل غور ہے کہ شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالنے کے ڈرامے کا دو تین اینکر پرسنوں کے علاوہ کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، عوام تو قطعی طور پر اس ٹوپی ڈرامے سے لاتعلق رہے، اس لئے اب اس کا اثر بھی جاتا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کون سا نیا ڈرامہ رچاتی ہے تاکہ عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائے رکھے۔ 

پی ٹی آئی اور عمران خان کے لئے پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ وہ اپنے آپ کو عوام کی سب سے مقبول سیاسی جماعت اور سب سے مقبول سیاسی لیڈر گردانتے رہتے ہیں مگر جب بھی احتجاج کی کال دی جاتی ہے، عوام قطعی طور پر مسترد کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے ایسے ورکر بھی سامنے نہیں آتے جو اس کے دور اقتدار میں مراعات کے مزے لیتے رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہر کوئی پتلی گلی سے نکلنے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنی ہی آواز کی گونج سنائی دیتی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ عوام اسے ریسپانڈ کر رہے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے، پی ٹی آئی اپنی سیاسی ساکھ کھو چکی ہے۔ یوں بھی عوام کی بڑی تعداد نے عمران خان کو اس شرط پر ووٹ دیا تھا کہ اسے ایک بار آزمانا ہے، وگرنہ ووٹ ڈالنے کیلئے ملک میں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی کمی نہیں ہے۔ اب جبکہ لوگ عمران خان کو بطور حکمران آزما چکے ہیں، اس لئے اب وہ اسی سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ایسے میں پی ٹی آئی کے خود پی ٹی آئی سے مخاطب ہونے پر محسن نقوی یاد آتے ہیں جنھوں نے کبھی کہا تھا کہ 

کب تک تو اونچی آواز میں بولے گا

تیری خاطر کون دریچہ کھولے گا 

پی ٹی آئی جو بند دروازنے کھولنا چاہتی ہے وہ سیسہ پلائی دیوار میں بدل چکے ہیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -