کیا ہو گا؟ دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے!

  کیا ہو گا؟ دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے!
  کیا ہو گا؟ دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دنیا بڑی تبدیلیوں کی طرف جا رہی ہے،حقیقی مالک و مختار اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات مبارک ہے جس نے یہ کائنات بنائی،جس کا کا ایک حصہ ہماری یہ زمین بھی ہے، سائنس کے مطابق یہ ایک سیارہ ہے جو دوسرے فلکی سیاروں کی طرح اس کائناٹ کا حصہ ہے تاہم یہ آباد ہے اور ہم انسان یہاں سانس لے رہے ہیں۔اگرچہ ہم انسانوں ہی نے اس خوبصورت سیارے کو جہنم کا حصہ بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی،عرض کیا کہ یہ دنیا تبدیلیوں سے گذر رہی ہے، دنیا میں خود کو واحد قوت قرار دینے والے ملک امریکہ کے صدارتی انتخابات میں سابقہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پھر سے کامیاب ہو کر صدر بن گئے، پچھلا انتخاب ہار گئے تھے اور جوبائیڈن نے  یہ چار سال پورے گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے بہت کچھ کہا اور سنا گیا ہے۔ایک بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ وہ متلون مزاج ہیں،ہمارے دیس میں اسے من موجی کہا جا سکتا ہے ان کے حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ اگلے لمحے وہ کیا کر گزریں گے کہ انہوں نے حلف اُٹھانے کے بعد پہلے ہی دن جو کارکردگی دکھائی اُس نے دنیا کو چونکا دیا ہے۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے انتقام نہ لینے کے اعلان پر عمل کیا اور سابقہ اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے،لیکن جوبائیڈن کے78 احکام منسوخ کر کے انہوں نے نئی صورتحال پیدا کر دی اور ڈیمو کریٹ پارٹی والوں کو کان کھڑے کرنا پڑے ہیں اور وہ ابھی سے مزاحمت کے لئے سر جوڑ بیٹھے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ بنیادی طور پر ایک کاروباری شخصیت ہیں،ان کے حالیہ اقدامات اور حمایت یافتہ ارب پتی حضرات کا ان کے ساتھ کھڑے ہونا اس حقیقت کا غمازہے کہ وہ کاروبارِ مملکت بھی نفع و نقصان کی بنیاد پر چلائیں گے۔انہوں نے جنگوں سے گریز اور امن کا نعرہ بلند کرتے ہوئے بھی جو اعلانات کئے ہیں ان سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عظیم امریکہ کے نام پر ”قبضہ گروپ“ جیسے عمل شروع کریں گے،جیسا کہ انہوں نے پاناما کو امریکی قبضہ میں لینے کا اعلان کیا۔دریں اثناء خود انہوں نے اور اب ان کے وزیر خارجہ نے بھی واضح کیا ہے کہ برسر اقتدار آنے والے یہ حضرات چین کی ترقی اور بڑھتی ہوئی طاقت کے علاوہ اثر و رسوخ سے بھی خائف ہیں اور چین کے خلاف محاذ آرائی یقینا ہو گی۔یوں دنیا میں ایک نئی کشمکش شروع ہو گی جو ماضی سے بہرحال مختلف رہے گی، اس طرح ٹرمپ انتظامیہ کے نہ کہتے ہوئے بھی دنیا میں ایک نئی طرح کی سرد جنگ شروع ہو گی،گو ڈونلڈ ٹرمپ جنگ کی مخالفت کا تاثر دے رہے ہیں لیکن ان کی گفتگو اور طرزِ عمل اس کی نفی کرتا ہے،ان کے لہجے میں تحکم ہے جیسے انہوں نے روسی  صدر پوٹن سے کہا ہے کہ وہ یوکرین کے تنازع پر مذاکرات کی میز پر آ جائیں ورنہ؟؟؟ یوں ان کے انداز میں جو تحکم پایا جا رہا ہے وہ آگے چل کر محاذ آرائی کی کئی اور صورتیں پیدا کر سکتا ہے،حالانکہ ان کی طرف سے امریکہ کو عظیم امریکہ بنانے کے لئے نفع ونقصان کے طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا گیاہے۔

یہ تو حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے ذکر تھا کہ دنیا بھر میں موضوع بحث ہے لیکن میری پریشانی یا خوف امریکہ، ڈونلڈ ٹرمپ یا ان کی انتظامیہ کا کوئی رویہ نہیں۔دنیا داری کے حوالے سے ہماری حکومت کو بھی محتاط رہنا ہو گا کہ ملکی مفاد کا سوال ہے اور اس احتیاط کی ایک نشانی تو محسن نقوی کی حلف برداری میں شرکت اور ملاقاتیں ہیں وہ یوں بھی ”Two in one“ ہیں اور کسی خبرکے بغیر ان کی شرکت بڑی خبر ہے جبکہ خبر والے حضرات کہیں نظر نہیں آئے،محسن نقوی کی موجودگی ہی میں یہ طے ہو گیا کہ پاکستان کاکس کا اجلاس اپریل کے آخری عشرہ میں ہو گا اور مقام واشنگٹن ہے یوں پہل تو متحدہ حکومت کی طرف سے ہو گئی ہے، آگے اللہ جانے! اچھی توقعات رکھنا بھی مثبت عمل ہے۔

اس حوالے سے گذارشات، میرا یہ مقصد ہے کہ ہم پاکستانیوں کو بھی اپنے ملک کو اولیت دینا چاہئے، بدقسمتی سے یہاں یہ احساس نہیں،بلکہ ہر معاملہ اَنا کا مسئلہ ہے۔حکومتی اور اپوزیشن اتحاد والے سبھی ملکی استحکام اور اچھے تعلقات کے علاوہ قومی بہبود و سلامتی  کی بات کرتے ہیں لیکن عملی طور پر محاذ آرائی ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں،سب لوگ سیاسی اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، لیکن عمل برعکس ہے۔حکومتی اتحاد اور انصافی اتحاد کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا تو سب نے تائید کی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا  تاہم عملی شکل مختلف ہے اور اب ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ شاید یہ مذاکرات عملی شکل اختیار نہ کر سکیں۔ تحریک انصاف نے تحریری مطالبات دے دیئے ہیں، جن کے بارے میں بتایا گیا کہ9مئی اور 26نومبر کے واقعات کے بارے میں جوڈیشنل کمیشن کا قیام اور دوسرا سیاسی اسیروں کی رہائی ہے، تحریک انصاف کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ان کی طرف سے حتمی بات کی گئی ہے یہ مطالبات پورے کئے جائیں اگر نہ ہوئے تو پھر مذاکرات کا چوتھا دور نہیں ہو سکے گا،معذرت کے ساتھ عرض کروں کہ اگر مذاکرات کے لئے یہ واحد شرط عائد کی گئی ہے تو پھر یہی بہتر تھا کہ وقت بچایا جاتا اور مذاکرات ختم کر دیئے جاتے۔اگرچہ مذاکرات کے لئے کبھی ایسی حد بندی نہیں کی جاتی،ٹیمیں بات چیت کرتی ہیں اس میں مطالبات بھی پیش ہوتے اور جواب بھی آتا ہے، لیکن ذرا حوصلہ ہو تو بات چیت کے لئے ایسی شرط مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہے کہ جب آپ کی یہ بات حتمی ہے تو پھر مذاکرات کا کیا فائدہ آپ مذاکرات کئے بغیر بھی یہ کہہ سکتے تھے کہ ہمارے مطالبات مان لو، ورنہ! لیکن یہاں تو تین ادوار مکمل بھی ہو چکے اور یہ چوتھا ہو گا،اب ایسی شرط کیوں؟ یہ شکوک پیدا کرے گی اور ایسا ہو رہا ہے اگر آپ اپنے موقف پر قائم ہیں، بات چیت کے دوران بھی یہ بات کی جا سکتی ہے اسے الٹی میٹم کی شکل دینا مناسب نہیں ہے۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر حکمران اتحاد کی کمیٹی کو اس سے اتفاق نہیں تو بات چیت ختم ہو جائے گی اور حکومت مخالف تحریک کا آغاز ہو گا جو اگرچہ پہلے ہی جاری ہے اور غیر موثر رہی،اسی لئے اب انفرادی اور جماعتی حمایت کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مذاکرات تو کچھ لو اور کچھ دو پر ہی منتج ہوتے ہیں اور بیرسٹر گوہر خان اور شبلی فراز کے ساتھ باقی حضرات سے بھی گذارش ہے کہ ایسا تو جرگہ میں بھی نہیں ہوتا کہ اسے ہٹ دھرمی کہا جاتا ہے اگر ایک فریق یہ کہہ دے کہ میری مان لو تو جرگہ قبول ورنہ دور سے سلام۔

ملکی حالات کے حوالے سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان ایک ایسے موڑ پر ہے جہاں دنیا میں ہونے والی تبدیلیاں بھی متاثر کر سکتی ہیں،خود اندرونی طور پر جن مسائل نے پریشان کر رکھا وہی کم نہیں ہیں،جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔مہنگای کم نہیں ہو رہی، بیروزگاری اپنی جگہ ہے۔وفاقی حکومت نے ہنرمند پروگرام شروع کیا تو صوبائی حکومتوں نے بھی اپنے اپنے طور پر کچھ نہ کچھ کرنے کے اعلان کئے ہیں۔ پنجاب کی حکومت نے تو اب نوجوانوں کو بلاسود قرض دینے کی بھی سکیم بنائی ہے اور30 لاکھ سے تین کروڑ روپے تک بلا سود قرض دینے کا اعلان کر دیا ہے، لیکن لازم اندرونی استحکام ہے جو قومی اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں اور یہ نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان کو شدید ضرورت مکمل استحکام اور امن کی ہے کہ  مل جل کر ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ حکومت اور انتظامیہ اپنا کام اطمینان اور تسلی سے کر سکیں۔اِس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ قومی سطح پر جو تقسیم پیدا کی گئی وہ ادارتی سطح پر بھی ہے حتیٰ کہ انصاف کے سب سے بڑے ایوان میں پھر سے اس نے سر اُٹھا لیا ہے،تھوڑا عرصہ سے جو اطمینان نظر آ رہا تھا وہ مفقود ہو گیا۔اب تو تقسیم بہت واضح کر دی گئی ہے جو معاملات اندرونی طور پر طے ہونا چاہئیں تھے وہ کھلی عدالت میں زیر بحث ہیں اور ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -