خون دینے اور لینے والے

کراچی سے قتل و غارت کی خبریں ہی زیادہ آتی ہیں۔اچھی خبر یہ آئی ہے کہ کراچی کا ایک نوجوان 65بوتلیں خون دے چکا ہے۔نوجوان نے بتایا کہ وہ انسانی جانوں کو بچانے کے لئے خون کا عطیہ دیتا ہے۔ایک طرف تو قاتل شکاریوں کی طرح انسانوں کا شکار کررہے ہیں، انہیں تڑپا رہے ہیں اور خون بہا کر اپنے جذبات کی تسکین کرتے ہیں۔دوسری طرف اسی شہر میں ایک ایسا نوجوان بھی موجود ہے،جس کو اپنی صحت کی فکر نہیں۔اس نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اس کے جسم سے خون نکلے گا تو اس کی صحت خراب ہو جائے گی۔وہ لیبارٹریوں کے خوفناک مناظر اور ان میں کام کرنے والے انسانوں کے وحشت ناک چہروں سے خوفزدہ نہیں ہوا، کیونکہ اس پر ایک ہی دھن سوار تھی، وہ دھن تھی، انسانی جانیں بچانے اور موت کے منہ میںپھنسی ہوئی زندگیوں کو چھڑانے کی۔
اسے معلوم ہے کہ انسانی زندگی کتنی قیمتی ہے۔جب ایک انسانی زندگی کا خاتمہ ہوتا ہے تو مائیں کیسے بین کرتی ہیں اور معصوم بچے کس طرح سسکیاں لیتے ہیں۔ جب گھروں سے جنازے اٹھتے ہیں تو خاندان والوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہے،جب بچوں کے لئے روزی کمانے والے انسان کی لاش گھر پہنچتی ہے تو کہرام کیسے مچتا ہے۔انسان کی کہانی بھی کیا عجب ہے۔یہ ایک ہی طرح رہتا ہے۔ایک ہی طرح قہقہے لگاتا ہے۔اس میں جو خون گردش کرتا ہے، اس کی طبعی اور کیمیائی ساخت بھی ایک جیسی ہے۔تمام انسان ایک ہی طرح سانس لیتے ہیں۔ان کے تمام جسمانی اعضاءبھی ایک جیسے ہیں۔ اب تو ایک انسان کے جسمانی اعضاءدوسرے انسان کو لگائے جارہے ہیں۔اتنی مماثلت اور اتنا فرق؟....واقعی حیران کن اور غوروفکر کے قابل ہے۔اسی شہر میں رہنے والا اسی طرح کا ایک انسان خون دے کر زندگیاں بچا رہا ہے تو ایک دوسرا انسان خون دینے کی بجائے خون لیتا ہے اور انسانوں کا شکار کرتا ہے اور لاشیں گراتا ہے۔
پاکستان میں قتل و غارت گری کی موجودہ لہر ہمارے لئے غوروفکر کا بہت سا سامان فراہم کرتی ہے۔قتل و غارت میں اتنا اضافہ کیا نفسیاتی عوارض کی وجہ سے ہے یا پھر قانون کی حکمرانی کا خاتمہ اس کاباعث ہے۔قتل و غارت کے رویے کس طرح جنم لیتے ہیں اور ان کی پرورش کیسے ہوتی ہے۔سیاسی ، سماجی اور مذہبی حالات کس طرح قتل و غارت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔مسئلے کا حل آخر کیاہے؟کیا یہ سلسلہ تھم جائے گا یا اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کی وجوہات کیا ہیں؟....اس طرح کے سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لئے مہذب اقوام تحقیق کرتی اور غوروفکر سے کام لیتی ہیں۔ہمیں ان عوامل پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ خون بہانا اور لاشیں اٹھانا ہمارا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے اور ہم ان حالات کے عادی ہوچکے ہیں۔
یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں علاقے کے تمام ممالک سے زیادہ قتل ہورہے ہیں۔ہمارے پڑوسی ممالک میں ایک سال میں جتنے قتل ہوتے ہیں، ان کی تعداد کم ہورہی ہے،جبکہ ہمارے ملک میں ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔اس وقت انڈیا میں ایک سال میں ایک لاکھ انسانوں میں سے عموماً3.2قتل کردیئے جاتے ہیں۔2000ءمیں یہ تعداد 42تھی۔ بنگلہ دیش میں 2.4انسان قتل ہوتے ہیں اور گزشتہ 12سال سے اس تعداد میں اضافہ نہیںہوا، بلکہ کسی حد تک کمی آئی ہے۔ایران میں 3انسان قتل ہوتے ہیں۔سری لنکا میں 4.6،نیپال میں 2.8، مالدیپ میں 2.6،بھوٹان میں 1.17،عوامی جمہوریہ چین میں 1.12،جبکہ پاکستان میں ایک لاکھ انسانوں میں سے 17.3انسان ہر سال ارادتاً قتل کردیئے جاتے ہیں۔ہمارے تمام پڑوسی ممالک اور سارک تنظیم کے ممالک کے مقابلے میں ہمارے ہاں قتل ہونے والے انسانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ان اعدادوشمار میں ایک امر اور توجہ طلب ہے۔وہ یہ ہے کہ خطے کے تقریباً تمام ممالک میں گزشتہ 12سال کے عرصے میں قتل ہونے والے انسانوں کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے،جبکہ ہمارے ہاں اضافہ ہوا ہے۔اعدادوشمار کے مطابق عالمی سطح پرسنگاپور، جاپان،آئس لینڈ اور مناکو ایسے ممالک ہیں، جن میں ارادتاً سب سے کم انسان قتل کئے جاتے ہیں۔یہ اعدادوشمار ایک ویب سائٹ سے حاصل کئے گئے ہیں اور ان کے مصدقہ ہونے کے بارے میں کوئی قطعی بات کہنا مشکل ہے، کیونکہ ارادتاً قتل کی تعریف کرنا بھی کافی مشکل کام ہے او رارادتاً قتل کرنے کی تعریف مختلف ممالک میں کسی حد تک مختلف ہوسکتی ہے ،لیکن ان اعدادوشمار کے مصدقہ ہونے سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں قتل و غارت اور ٹارگٹ کلنگ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ٹارگٹ کلنگ بھی دراصل ارادتاً قتل ہی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ قتل و غارت پر قابو پانے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی سرے سے ہی ناپید ہے۔نہ ہمیں اس قتل و غارت کی وجوہات کا علم ہے اور نہ اس پر قابو پانے کے طریقوں کے بارے میں کچھ معلوم ہے۔ہمارا میڈیا بھی سوفیصد سیاست زدہ ہوچکا ہے اور سیاسی خبروں کے علاوہ اسے کوئی بات سجھائی ہی نہیں دیتی۔میڈیا کو زیادہ فکر ہے کہ موجودہ وزیراعظم کتنے عرصے تک برقرار رہے گا او رکس وقت اس کی چھٹی کرائی جائے گی؟ حالانکہ دنیا بھر کے ممالک میں جرائم کا سراغ لگانے ، اس کی وجوہات تلاش کرنے ،ان پر تحقیق کرنے میں میڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ہمارے ہاں قانون کی بالادستی تو تقریباً ہر شعبے میں ختم ہوچکی ہے، لیکن قتل کی وجوہات اور قاتلوں کے بارے میں کسی قسم کا تحقیقی کام بھی نہیں ہورہا۔یہ قاتل کن گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی بیک گراﺅنڈ کیا ہے۔اس قتل و غارت میں لسانی ،سیاسی، مذہبی یا فرقہ پرستی کا عنصر کتنا ہے۔ان قاتلوں کی نفسیات کیا ہے اور ان کی تربیت کس قسم کے ماحول میں ہوتی ہے۔کیا ہمارے معاشرے میں انتہاپسندی ، عدم برداشت کو جس قدر فروغ حاصل ہوا ہے،کیا قتل ہونے کی شرح بھی اسی تناسب سے بڑھی ہے اور ان عوامل کا آپس میں کیا تعلق ہے؟.... لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کا تحقیقاتی کام کون کرے۔تحقیق کے بعد تو حقیقت سامنے آتی ہے اور ہم حقیقت سے نظریں چرانے کے عادی ہیں۔ہم تو وہی سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں جو ہمارے نظریات سے مطابقت رکھتا ہے، جو بات ہماری سوچ یا نظریے سے مختلف ہے، اس کی ہمارے ہاں کوئی وقعت نہیں۔ہم اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے دوسروں کے گریبان پکڑنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ان حالات میں قتل و غارت کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ ٭