فتنہ انکارِ نظریہ پاکستان 

 فتنہ انکارِ نظریہ پاکستان 
 فتنہ انکارِ نظریہ پاکستان 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


”پاکستانی ریاست کا نظریاتی سراب“ ایک کتاب کا نام ہے جو 2021ء میں شائع ہوئی۔ یہ عنوان ہی کتنا زہر آلود اور فتنہ انگیز ہے۔ پاکستان کا ظرف کتنا وسیع ہے کہ اس نے اپنی سرزمین میں ان افراد اور گروہوں کو بھی پناہ دے رکھی ہے جن کی زبانیں دن رات اس نظریئے کے خلاف زہر اگلتے ہوئے نہیں تھکتیں جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔ کتاب کا مصنف لکھتا ہے، ”اس ملک کے جملہ مسائل کی جڑیں قرارداد مقاصد سے شروع ہوتی ہیں“، اپنی اسی بات کو دہراتے ہوئے مصنف نے مزید لکھا ہے کہ ”پاکستان کے نظریاتی سراب کی جڑیں قرارداد مقاصد میں ہیں“۔وہ قرارداد مقاصد جو 12 مارچ 1949ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں منظور کی گئی اور وہ قرارداد مقاصد جو 1973ء کے دستور پاکستان کا مستقل حصہ قرار دی گئی ہے، قرارداد مقاصد جس میں پاکستان کی نظریاتی سمت اور نظریاتی شناخت کا ہمیشہ کے لئے تعین کر دیا گیا، اسی قرارداد مقاصد کو پاکستانی ریاست کا نظریاتی سراب قرار دینا اور پھر یہ لکھنا کہ پاکستان کے جملہ مسائل یا تمام خرابیوں کی جڑیں قرارداد مقاصد سے شروع ہوتی ہیں، اس نقطہ ئ نظر کو ایک سفاک جہالت کے سوا اور کیا نام دیا جائے۔ جو افراد یا گروہ پاکستان کی نظریاتی جڑوں پر بے وقوفی، نا سمجھی اور نادانی سے یا شعوری طور پر کسی مخصوص ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے کلہاڑا چلاتے ہیں وہ اصل میں پاکستان کے وجود پر حملہ کرتے ہیں۔

ممتاز ترین دانشور پروفیسر فتح محمد ملک اپنی ایک کتاب ”فتنہ انکار پاکستان“ میں لکھتے ہیں،پاکستان کے نظریاتی وجود سے انکار پاکستان کے وجود سے انکار کے مترادف ہے۔ ہمارے نظریاتی وجود سے ہمارے جغرافیائی وجود کا رشتہ عضویاتی (Organic) ہے۔ چنانچہ ہماری قومی بقاء اور ملکی سالمیت کا اولین تقاضہ ہی یہ ہے کہ ہماری داخلی اور خارجی حکمت عملی نظریہئ پاکستان کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو“۔ نظریہ پاکستان ایک دائمی صداقت کا نام ہے، جب پاکستان ابھی قائم نہیں ہوا تھا، نظریہئ پاکستان اس وقت بھی اپنا وجود رکھتا تھا۔ قائد اعظم نے 8 مارچ 1944ء کو علی گڑھ یونیورسٹی میں اپنی ایک تاریخی تقریر میں فرمایا تھا کہ پاکستان اسی دن وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی، مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ  ئ توحید ہے، وطن نہیں اور نہ ہی نسل، ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا بلکہ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا اور ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی۔
قائد اعظمؒ نے اپنی اسی تقریر میں مزید فرمایا کہ آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا تھا، مسلمانوں کے لئے ایک جداگانہ مملکت کے قیام کی وجہ جواز کیا تھی، تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس کی وجہ نہ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں کی چال۔ یہ (پاکستان) اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔

آ
قیام پاکستان کے اسباب اور مقاصد تو خود قائد اعظمؒ نے واضح کر دیئے کہ پاکستان، اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا اور اسلام کی خاطر یہ ملک معرض وجود میں آیا۔ یہ ایک سیدھی اور آسان فہم بات ہے کہ پاکستان کی اساس اسلام یا اسلامی نظریہ ہے اور اسلام کے بارے میں کسی مسلمان کو یہ شبہ نہیں ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ اور نظامِ حیات ہے جو انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں کے لئے راہنمائی کرتا ہے۔ قرارداد مقاصد میں بھی یہی اعلان اور اظہار کیا گیا تھا کہ پاکستان کے عوام کو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے اختیار اور اقتدار کو اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کا حق حاصل ہو گا۔ پاکستان میں جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور معاشرتی عدل کے اصولوں کو جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پوری طرح ملحوظ رکھا جائے گا۔ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلامی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق جس طرح کہ قرآن حکیم اور سنتِ رسولؐ میں ان کا تعین کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں۔ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے قرارداد مقاصد میں یہ اظہار کیا گیا تھا کہ اقلیتوں کو آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی عقائد رکھنے اور ان پر عمل کرنے کا حق حاصل ہوگا اور اپنی ثفافتوں کو وہ آزادانہ طور پر ترقی دینے کا حق رکھتی ہیں۔


اب جس مصنف نے ”پاکستانی ریاست کا نظریاتی سراب“ نامی کتاب لکھی ہے۔ اس سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ پاکستان کی پارلیمنٹ کو اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کے عمل کو سراب یعنی دھوکے اور فریب کا نام دے رہا ہے۔ کیا اسلام کی تشریح کے مطابق پاکستان میں رواداری، مساوات، آزادی، جمہوریت اور معاشرتی عدل پر مبنی نظام کے نفاذ کے عزم کو سراب قرار دے رہا ہے۔ اگر پاکستان کے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنتِ رسولؐ میں بیان کی گئی تعلیمات کے مطابق ڈھال لیں تو کیا مصنف اس کو نظریاتی سراب سمجھتا ہے۔ اگر یہ لکھا جائے کہ پاکستان کے جملہ مسائل کی جڑیں قرار داد مقاصد سے شروع ہوتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خاکم بدہن اللہ اور رسولؐ کے احکامات پر عمل کرنے کی قرارداد منظور کرنے کی وجہ سے پاکستان کے تمام مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ قرار داد مقاصد آئین پاکستان کا لازمی اور مستقل حصہ ہونے کے باوجود کب اور کس حکومت نے قرآن و سنتِ رسولؐ کے احکامات پر پوری طرح عمل کیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی پاکستان میں اپنی اجتماعی زندگیوں میں اسلام کے احکامات اور اصولوں پر عمل کیا ہی نہیں۔ اگر ہم پاکستان کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلام سے راہنمائی لے کر اپنے اعمال کی سمت کو درست رکھتے تو پاکستان تو کبھی ان خرابیوں اور مسائل کا شکار ہی نہ ہوتا جن مسائل اور بحرانوں کا ہم شکار ہیں یا جن امراض میں ہم بطور قوم مبتلا ہیں۔ قرار داد مقاصد میں اسلام، اسلامی اصولوں، اسلامی تعلیمات اور قرآن و سنتِ رسولؐ کے متعین کئے ہوئے راستے کے علاوں اور کوئی بات ہی نہیں کی گئی۔ یہ کہنا اور لکھنا تو بدترین کفر ہوگا کہ پاکستان میں جملہ مسائل پیدا ہی اس وجہ سے ہوئے کہ قرار داد مقاصد میں قرآن و سنتِ رسولؐ کی تعلیمات پر عمل کرنے کا اعلان و اظہار اور عزم کیا گیا تھا۔
قائد اعظمؒ نے جب 13 جنوری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور کا دورہ کیا تھا تو وہاں انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھابلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔“


پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے بھی قرار داد مقاصد کے حوالے سے دستور ساز اسمبلی میں اپنی اختتامی تقریر میں قائد اعظمؒ ہی کے نظریات کو پیش کرتے ہوئے کہا تھا، ”قیام پاکستان کی صورت میں مسلم لیگ کا آدھا مشن مکمل ہوا ہے۔ مشن کا دوسرا آدھا حصہ پاکستان کو اسلامی اصولوں کی عملی تجربہ گاہ بنانا ہے۔“
قرار داد مقاصد کا آسان لفظوں میں مفہوم یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظریئے کو برقرار رکھا جائے گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے، پاکستان کے نظریاتی وجود ہی سے پاکستان کا جغرافیائی وجود قائم ہے اس لئے میں پاکستان کے نظریاتی وجود سے انکار کو پاکستان کے جغرافیائی وجود پر حملے سے بھی زیادہ خطرناک سمجھتا ہوں۔ نظریہئ پاکستان کی تردید ہو یا پاکستان کی تخریب دونوں ہی سنگین جرم ہیں اس لئے میں پاکستان جیسی نظریاتی مملکت میں ”پاکستانی ریاست کا نظریاتی سراب“ جیسی کتاب لکھنے اور شائع کرنے کو فتنہئ انکارِ نظریہئ پاکستان کی بنیاد پر پاکستان کے جغرافیائی وجود پر شرمناک حملہ سمجھتا ہوں۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

مزید :

رائے -کالم -