پارک کو سڑک بنانے کا معاملہ اور سینیٹر اسحاق ڈار کا نجی ٹی وی کو انٹرویو ، اصل حقیقت کیا ہے ؟جان کر آپ بھی سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے

پارک کو سڑک بنانے کا معاملہ اور سینیٹر اسحاق ڈار کا نجی ٹی وی کو انٹرویو ، ...
پارک کو سڑک بنانے کا معاملہ اور سینیٹر اسحاق ڈار کا نجی ٹی وی کو انٹرویو ، اصل حقیقت کیا ہے ؟جان کر آپ بھی سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر:خالد شہزاد فاروقی

مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما ،سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے سمدھی سینیٹر اسحاق ڈار کے گھر کے باہر بنے پارک کو سڑک پر شامل کرنے کا معاملہ آج سپریم کورٹ میں زیر بحث آیا تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈی جی ایل ڈی اے کی اچھی خاصی ’’دھلائی ‘‘ کی اور 10روز میں سڑک کو پہلی حالت میں بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آپ وزیروں کے غلام بنے ہوئے ہیں ،کیوں نا یہ کیس نیب کو بھیج دیا جائے ؟جس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے استدعا کی کہ اس کیس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا مجھے سینیٹر اسحاق ڈار نے فون کر کے سڑک کھلی کرنے کا کہا تھا ۔

اسی بابت آج نجی ٹی وی چینل ’’دنیا نیوز ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر اسحاق ڈار نے اس پارک اور سڑک کی توسیع کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی ۔مجھے اس کیس اور اسحاق ڈار کے نجی ٹی وی کو دیئے گئے بیان سے دلچسپی اس لئے پیدا ہوئی کہ میری رہائش بھی اسی پارک کے بالکل ساتھ ہی واقع ہے اور میرے بچے بھی اسی پارک میں آ کر اچھل کود کرتے ہیں ۔سینیٹر اسحاق ڈار نے جو گفتگو نجی ٹی وی سے کی اس میں انہوں نے دانستہ حقائق چھپائے اور بہت سی غلط بیانی کی جسے سن کر میں حیران رہ گیا ہوں کہ کیا اس ملک کا وزیر خزانہ رہنے والا شخص کسی نجی معاملے میں اس حد تک غلط بیانی کر سکتا ہے جسے غلط ثابت کرنے کے لئے کسی ’’جے آئی ٹی ‘‘ کی ضرورت نہیں ؟؟؟وہاں رہنے والے کسی بھی ’’بزرگ ‘‘ سے اصل حقائق جانے جا سکتے ہیں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ جس پارک کا یہ معاملہ ہے اسے ڈی گراؤنڈ کہا جاتا ہے ،لاہور شہر کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں نوجوانوں کے لئے کھیل کے میدان پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہیں ، فردوس مارکیٹ ،ماڈل کالونی ،مکہ کالونی،جی بلاک، ایچ بلاک ،جے بلاک اور دیگر ملحقہ علاقوں کے لئے یہی ایک گراؤنڈ تھا جس میں نوجوان اور بچے کبھی کرکٹ ،کبھی فٹ بال اور کبھی ’’گلی ڈنڈا ‘‘ کھیلا کرتے تھے جبکہ میں بھی یہ تینوں کھیل اسی گراؤنڈ میں کھیلتے ہوئے بڑا ہوا ہوں ۔پہلے جمعہ اور پھر اتوار کی چھٹی کے روز ڈی گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلنے والوں کا بہت رش ہوا کرتا تھا ۔ماضی میں ہم یہاں فلڈ لائٹ کرکٹ ٹورنامنٹ بھی کروایا کرتے تھے جس میں علاقہ بھر سے نوجوان سینکڑوں کی تعداد میں یہاں ہونے والے کرکٹ مقابلوں میں شریک ہوا کرتے تھے ۔قومی کرکٹ ٹیم اور پشاور زلمی کے سٹار کھلاڑی کامران اکمل اور ان کے بھائی بھی اسی گراؤنڈ میں ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتے تھے ۔اب میں زرا ڈی گراؤنڈ کے ارد گربنے گھروں کے بارے میں مختصر بتانا چاہتا ہوں ۔

نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر اسحاق ڈار نے اس پارک کا رقبہ50سے 60کنال بتایا ہے حالانکہ یہ پارک18سے 20کنال سے زیادہ بڑے رقبے پر محیط نہیں ہے ، ڈی شیپ میں بنی اس گراؤنڈ کے ارد گرد ٹوٹل15سے 16کوٹھیاں بنی ہوئی ہیں ،اس گراؤنڈ کے ارد گرد بنے گھروں میں سے ایک گھرحجرہ شاہ مقیم کے گدی نشین کا ہے جبکہ ماضی میں پیپلز پارٹی اور اب ن لیگ میں شامل لاہور کے معروف تاجر رہنما حاجی عبد المنان سمیت دیگر افراد  بھی اسی گراؤنڈ کے ارد گرد بنے گھروں میں رہائش پذیر ہیں ۔ڈی گراؤنڈ کے چار  حصے بنے ہوئے ہیں جبکہ ایک حصہ ’’ڈونگی گراؤنڈ ‘‘کہلاتا تھا ،گراؤنڈ کے دیگر حصوں کے مقابلے میں یہ ’’ڈونگی گراؤنڈ‘‘ چار پانچ فٹ زمین سے نیچی تھی ،اسی ڈونگی گراؤنڈ کے سامنے ’’قبلہ اسحاق ڈار ‘‘کا گھر ہے ،کچھ عرصہ قبل اسحاق ڈار کی ’’فرمائش‘‘ پر پی ایچ اے نے اس گراؤنڈ کوپارک بنانے کا فیصلہ کیا اور’’ ڈونگی گراؤنڈ ‘‘کو باقی گراؤنڈ کے برابر ہموار کرتے ہوئے کرکٹ کھیلنے والے نوجوانوں کا راستہ بند کردیا اور کھیلوں پر پابندی لگاتے ہوئے پورے گراؤنڈ میں پھول بوٹے اورپودے لگا دیئے گئے ۔علاقے کے نوجوانوں نے اس پر احتجاج بھی کیا لیکن جب حکام فیصلہ کر لیں تو غریبوں کی کون سنتا ہے ؟تاہم آہستہ آہستہ اب ایک مرتبہ پھر وہاں پر نوجوانوں نے چھٹی کے روز کرکٹ کھیلنا شروع کر دیا ہے تاہم اس میں اب وہ پہلے جیسی گرم جوشی نظر نہیں آتی جو آج سے 15بیس سال پہلے تھی ۔

نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر اسحاق ڈار صاحب کا یہ کہنا کہ’’ اس پارک کے ساتھ ڈیڑھ کنال کچی جگہ تھی جو غیر قانونی پارکنگ کے لئے استعمال ہوتی تھی ، مقامی کونسلر ابو بکر ان کے پاس آیا اور کہا کہ ہم اسے پارک میں شامل کرنا چاہتے ہیں جس پر میں نے کہا جیسے آپ چاہیں ،لہذا  سڑک کی یہ جگہ پارک میں شامل کر دی گئی ‘‘ مکمل طور پر غلط ،بے بنیاد اور جھوٹ ہے کیونکہ یہاں کوئی ڈیڑھ کنال کچی جگہ نہیں تھی بلکہ جیسا میں نے پہلے کہا کہ یہ تو ’’ڈونگی گراؤنڈ ‘‘ تھی جسے اسحاق ڈار کے کہنے پر ہموار کیا گیا ،تاہم اس گراؤنڈ کی باؤنڈری پر لوہے کا جنگلہ پہلے نہیں تھا جو پارک بنانے کے بعد نصب کیا گیا تھا۔سینیٹر اسحاق ڈار کی یہ بات کہ’’ یہاں بڑی تعداد میں سکول کھل چکے ہیں ،مدرسے اور دفاتر بن چکے ہیں ‘‘ بھی غلط اور جھوٹ ہے کیونکہ اس گراؤنڈ کے ارد گرد ایک بھی سکول نہیں ہے ،مدرسے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جبکہ پوری ڈی گراؤنڈ کے ارد گرد کوئی ایک بھی دفتر قائم نہیں ہے ہاں البتہ اسحاق ڈار صاحب کے گھر کے بالکل ساتھ والی کوٹھی میں گیسٹ ہاؤس ضرور بنا  ہوا ہے لیکن اس گیسٹ ہاؤس کے باہر نہ تو گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اور نہ ہی باہر سے لگتا ہے کہ یہ کوئی گیسٹ ہاؤس ہے ۔اسحاق ڈار صاحب نے جس کونسلر کو مرحوم قرار دیا ،وہ ابوبکر کریم چوہدری نہ صرف حیات ہیں بلکہ اب وہ تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں اور ڈی گراؤنڈ سے تھوڑا پہلے ان کا کم ازکم اسحاق ڈار سے دو گنا بڑا گھر تحریک انصاف کا مقامی دفتر بنا ہوا ہے ،انکے صاحبزادے اور ہمارے بچپن کے دوست شاہ رخ ابو بکر پی ٹی آئی کی طرف سے بلدیاتی الیکشن میں حصہ بھی لے چکے ہیں ۔

اسحاق ڈار صاحب کا قومی ٹی وی پر کھلم کھلا یہ کہنا کہ’’ وہاں شدید ٹریفک جام ہوتا ہے اور ایکسیڈنٹ بھی ہونا شروع ہو گئے ہیں‘‘اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کیونکہ اس سے زیادہ پرسکون جگہ تو کوئی دوسری اس ایریا میں ہے ہی نہیں ،آپ وہاں پر سارا دن کھڑے ہو کر مشاہدہ کریں تو آپ کو  پندرہ ،20 منٹ بعد ہی کوئی اکا دکا گاڑی وہاں سے گذرتی دکھائی دے گی ،اس لئے یہ کہنا کہ وہاں ٹریفک کا دباؤ بہت بڑھ گیا تھا ،اس پرسینیٹر صاحب  کی ’’عیاری اور سادگی ‘‘پر ہنسا ہی جا سکتا ہے۔سینیٹر اسحاق ڈار صاحب کا یہ فرمانا کہ ’’ڈی جی ایل ڈی اے کا مجھے میسج آیا کہ یہاں آپ کے گھر کے اردگرد لوگوں کی ٹریفک جام سے متعلق شکایات ہیں ،تو ہم اس پار ک کو تھوڑا سا کم کر کے سڑک کو کشادہ کرنا چاہتے ہیں آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟ جس پر میں نے جواب دیا کہ مجھے کیا اعتراض ہو سکتاہے؟ آپ اپنے اصولوں کے مطابق کام کریں اور وہاں کے مکینوں سے پوچھیں‘‘ بھی سرا سر غلط بیانی اور دروغ گوئی ہے کیونکہ میں نے خود جب گراؤنڈ کو اکھاڑا جا رہا تھا تو  اس وقت مجھے اسحاق ڈار صاحب کے گھر کے ایک اہم ’’ بھیدی‘‘ نے بتایا تھا  کہ ڈار صاحب کے حکم پر اس تھوڑے سے کام کا ٹھیکہ ایک کروڑ 20لاکھ روپے سے زیادہ میں دیا گیا ہے ،جس پر  مجھے یقین نہ آیا تو میں نے خود تحقیق کی تو پتا چلا کہ ڈار صاحب کی خواہش پر یہ کام کروایا جا رہا ہے کیونکہ ڈار صاحب جب آتے ہیں تو ان کے گھر کے سامنے سے گذرنے والی اکا دکا گاڑیوں سے گھر کے اندر موجود ڈار صاحب کو کیمرے میں دیکھ کر ناگوار گذرتا ہے ،اسی لئے سڑک کا دوسرا نیا بننے والا یہ حصہ صرف ڈار صاحب کے گھر آنے والی گاڑیاں ہی استعمال کریں گی جبکہ جب ڈار صاحب خود یہاں ہوتے تو جہاں سے ڈار صاحب کا گھر ختم ہوتا تھا وہاں بیرئیر لگا کر اس حصے کو بند کر دیا جاتا تھا ۔

ڈار صاحب میں ’’پروٹوکول کی یہ ’’بیماری ‘‘ پہلے نہیں تھی ،پہلے باہر سے آنے والے کسی شخص کو پتا بھی نہیں چلتا تھا کہ اس معمولی اور عام سے گھر کا مالک اس ملک کا وزیر خزانہ رہنے والا شخص ہے کیونکہ وہاں نہ تو پولیس چوکی کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی عام اور روایتی طور پر وہاں پولیس ناکہ موجود ہے ،گوکہ پولیس ناکے اور چوکی کا تصور اب بھی وہاں نہیں ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پہلے ڈی گراؤنڈ کو پارک بنانے اور پھر حال ہی میں پارک کا کچھ حصہ اکھاڑ کر دورویہ سڑک بنانے کے پیچھے صرف اور صرف اسحاق ڈار صاحب کی خواہش ہی پنہاں تھی اور بیچارے ڈی جی ایل ڈی اے کی کیا مجال تھی کہ وہ وزیر اعظم کے سمدھی اور ملک کے وزیر خزانہ کی اس معمولی خواہش کو پورا کرنے میں کوتاہی کرتا تاہم مجھے آج اسحاق ڈار کا بڑے ٹی وی چینل پر اس قضئے بارے ’’سفید جھوٹ ‘‘ بولتے ہوئے انتہائی افسوس اور دکھ ہوا ہے کیونکہ مجھے ’’ہجویری ہاؤس‘‘ کے مالک سے اس کی توقع نہ تھی ۔

بلاگر معروف صحافی اور قومی اخبار میں بطور نیوز ایڈیٹروابستہ ہیں ،آپ ان سے ’’ksfarooqi@gmail.com‘‘ پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -