بر صغیر میں باری دو آب ایکٹ اور آب کاری بِل کے خلاف آگ لگی ہوئی تھی۔بار کا علاقہ تو بغاوت کے لیے شعلہ جوالہ بن چکا تھا،لالہ لاجپت رائے اور اجیت سنگھ کو رائے مانڈلے قلعے میں قید کر دیا گیا تھا۔ ریل کی پٹڑیاں اکھاڑی جا رہی تھیں،ہر ایک کی زبان ”پگڑی سنبھال جٹا،پگڑی سنبھال جٹا“ کے نعرے سے لبریز تھی۔ یہ حالات تھے جب وہ اس دنیا میں آیا۔ اس کی پیدائش فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے چک نمبر 10 بنگلہ میں ہوئی۔ والدین نے نام بھگت سنگھ رکھا لیکن تاریخ اس کو ”شہید وطن“ کے نام سے یاد کرتی ہے۔
ان دنوں پنجاب میں سیاسی سرگرمیاں زور پکڑ رہی تھیں ان کے والد سردار کشن سنگھ نے سید حیدر رضا،ضیاء الحق اور سورن سنگھ کے ساتھ مل کر ایک تنظیم ”انجمن محبان ِوطن“قائم کر لی تھی۔ صوفی ابنا پر شاد کا اخبار "پیشوا" ان کا ترجمان بن چکا تھا۔ اس تنظیم کا مقصد کسانوں میں حقوق کے لیے آگاہی پیدا کرنا تھی لیکن انگریز ان سے خوف زدہ ہو گیا۔ پنجاب کے اس قت کے گورنر سر ڈنز ابیٹسن اپنی ایک رپورٹ میں انگریزوں کے خوفزدہ ہونے کا احوال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ”سیالکوٹ، راولپنڈی اور لائل پور میں انگریزوں کے خلاف کھلم کھلا باغیانہ پروپیگنڈہ ہو رہا ہے یہاں سردار ارجیت سنگھ اور لالہ لاجپت سنگھ نے جلوسوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور لوگوں کو کھلم کھلا بغاوت پر اکسا رہے ہیں“۔ .
یہ 1911-12ء کی بات تھی جب بھگت سنگھ پرائمری سکول میں پڑھتا تھا اس چھوٹی عمر میں ہی اس کے والد کے دوستوں کرتار سنگھ سرابھا اور راس بہاری بوس کی صحبت نے اسے انقلابی بنادیا اور وہ وطن کی آزادی کے خواب دیکھنے لگا۔ سرابھا سے اس کے تعلق کا یوں پتا چلتا ہے کہ جب وہ پہلی بار گرفتار ہوا تو سرابھا کی تصویر اس کی جیب میں تھی۔ بھگت مزید تعلیم کے لئے لاہور آگیا اس سے دو سال قبل جلیانوالہ باغ کا خونی ڈرامہ ہو چکا تھا ابھی وہ نہم جماعت میں ہی تھا کہ سول نافرمانی کی تحریک میں شامل ہونے کی بنا پر اسے ادارے سے نکال دیا گیا۔ اس کی اصل زندگی کا رخ کالج کی تعلیم سے شروع ہوتا ہے جہاں اس نے انقلابی طلبہ سے مل کر باقاعدہ انگریز حکومت سے ٹکڑا جانے کی ٹھانی۔
1925ء میں بھگت سنگھ کی گرفتاری کے آرڈر ہوئے۔وہ چھپتے چھپاتے دہلی آیا اور اخبار”ویر ارجن“ میں بلونت کے فرضی نام سے کام کرنے لگا۔ 9اگست 1925ء میں بھگت سنگھ نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سرکاری خزانہ لے جانے والی ریل پر حملہ کیا اور خزانہ لوٹا خوہ فرار ہو گیا، ساتھیوں پر مقدمہ چلا جس کو تاریخ میں ”کاکوری سازش“ کے نام سے شہرت ملی۔
بھگت سنگھ نہرو رپورٹ کو محنت کش اور مزدوروں کے خلاف ایک سازش سمجھتا تھا اس رپورٹ کیخلاف اس نے پورے ملک میں جدوجہد کا آغاز بھی کیا۔ 30 اکتوبر کو سائمن کمیشن لاہور پہنچا اس میں سر جان سائمن کے علاوہ سات انگریز شامل تھے برصغیر کی تمام مذہبی،سیاسی اور سماجی جماعتوں نے اس کمیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔لالہ لاجپت رائے،مولانا ظفر علی خان،سید عطا ء اللہ شاہ بخاری، چوہدری فضل حق،ڈاکٹر ستیہ پال کی زیر قیادت ایک عظیم الشان احتجاجی جلوس نکلا جو ریلوے اسٹیشن کے باہر مظاہرہ کرتا رہا۔ جونہی کمیشن کے ارکان پلیٹ فارم سے باہر نکلے مظاہرین بے قابو ہو گئے۔ مسٹرسکاٹ ایس ایس پی نے زبردست لاٹھی چارج کرایا۔ لالہ لاجپت رائے کے سینہ پر زخم آیا، اسی رات موری دروازہ کے باہر ایک بڑا جلسہ ہوا جس میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے اپنی تقریر سے لوگوں پر جیسے جادو کردیا اور لالہ لاجپت رائے نے کہا ”میرے بچو! اپنی عزت کا بدلہ لینا چاہتا ہوں میرے سینے پر جو لاٹھیاں پڑی ہیں وہ برطانوی سامراج کے تابوت میں آخری میخیں ہوں۔ آج میں تمہیں انتقام کی دعوت دیتا ہوں ہندوستان تمہارے حوصلوں اور ولولوں کا رستہ دیکھ رہا ہے“۔ چند روز بعد لالہ لاجپت رائے فوت ہو گئے پورا ملک ہل گیا لاہور کے تعلیمی ادارے بند ہو گئے۔
لالہ لاجپت رائے کی موت کا بدلہ بھگت سنگھ اور اس کے انقلابی ساتھیوں نے لینے کا منصوبہ بنایا وہ سکاٹ کی تلاش میں نکلے لیکن ایک سارجنٹ سانڈرس ان کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ آغا شورش نے اپنی کتاب ”بوئے گل،نالہ دل، دود چراغ محفل“ میں واقعہ کا چشم دید ذکر کیا ہے۔ بھگت سنگھ موقع سے فرار ہو گیا۔
بھگت سنگھ نہرو،گاندھی اور دوسرے ہندو لیڈروں کی پالیسیوں کے خلاف تھا وہ مذہبی رواداری کا قائل تھا اس کے نزدیک برصغیر کے تمام مذاہب قابل احترام تھے وہ فرقہ وارانہ فسادات کو انگریز کی سازش سمجھتا تھا۔ بھگت سنگھ نے انگریزوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا تھا۔ وہ بھیس بدل کر ”کلکتہ مزدور کانفرنس“میں شریک ہوا وہاں سے دہلی گیا پھر آگرہ میں بم بنانے کی ایک فیکٹری قائم کی۔ ان دنوں ہندوستان کے 33کمیونسٹ رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تاریخ میں اس مقدمہ کو ”میرٹھ سازش کیس“ کے نام سے پذیرائی ملی۔ان گرفتار لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ملک میں سناٹا اور جمود چھا گیا۔
بھگت سنگھ اس جمود کو توڑنا چاہتا تھا ان دنوں دہلی میں اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا ”سیفٹی اور صنعتی تنازعوں کا بل“ اسمبلی میں زیر بحث تھا۔ بھگت سنگھ نے اسمبلی پر بم پھینکنے کا منصوبہ بنایا۔ وہ بی کے دت کے ساتھ کسی طرح اسمبلی میں پہنچ گیا عین اس وقت جب بحث عروج پر تھی اس نے سرکاری بینچوں کے نیچے احتیاط سے بم پھینکے،یکے بعد دیگرے پھٹنے والے بموں کی وجہ سے اسمبلی میں بھگدڑ مچ گئی۔ اس نے ”برطانوی سامراج مردہ باد“کے نعرے لگائے اور اپنے پیغام پر مبنی خطوط اسمبلی میں پھینکے۔ بھاگنا اس کے منصوبے میں شامل نہ تھا۔ مسٹر آصف علی اسمبلی میں موجود تھے اس نے خود سنا وہ کہ رہا تھا ”ہم دنیا کو خود بتائیں گے کہ ہم کیا ہیں“۔ وہ گرفتار ہوا اس حملے میں چار انگریز زخمی ہوئے۔ اس کے منصوبے کی اگلی کڑی عدالت میں جر اَ ت مندانہ بیان دینا تھا جس کے ذریعے وطن کے جوانوں کو جھنجوڑا جا سکے اور پورے وطن کو بیدار کیا جاسکے۔ اس کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ مسٹر آصف علی نے اس کا کیس لڑا۔ اس کے عدالتی بیان نے پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا اور پورا برصغیر آزادی کے لئے انگڑائیاں لینے لگا۔ اس کیس میں اس کو عمر قید ہوئی۔ جسٹس فورڈ اور جسٹس ایڈیسن کی عدالت میں اپیل ہوئی مسٹر آصف علی پیش ہوئے لیکن اپیل کو خارج کر دیا گیا۔
اب اس کو سانڈرس قتل کیس میں دھر لیا گیا امرت سر کے جلیانوالہ باغ میں بھگت سنگھ کے حق میں بہت بڑا جلسہ ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر سیف الدین کچلو نے کی،سانڈرس کیس کو ”لاہور سازش مقدمے“کا نام دیا گیا۔ بھگت سنگھ نے اس کیس میں بالکل دلچسپی نہیں لی بلکہ دوران بحث اس نے کاکوری شہیدوں کی یاد میں عدالت میں گیت گانے کا مطالبہ کر دیا۔ جب جج اس سے کوئی سوال پوچھتے وہ کتابوں میں مگن ہو جاتا۔
اکتوبر 1930ء کو اسپیشل ٹربیونل کے تین ججز جسٹس جی سی،ہلٹن،عبدالقادر،وجے کے ٹیپ نے اسے سا تھیوں سمیت سزائے موت سنا دی۔ 23 مارچ 1931ء شام سات بجے جلاد نے ان کو پھانسی چڑھادیا۔ لاشیں رات و رات فیروز پور کے قریب دریائے ستلج کے کنارے جلادیں اور جلی ہوئی لاشوں کو دریا برد کر دیا۔ یہ تمام کاروائی عام قواعد کے خلاف کی گئی ساری دنیا میں شور مچ گیا۔بھگت سنگھ اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا اس کا مقصد بر صغیر کی عوام کی بیداری تھی اور وہ تمام لوگوں کے ذہنوں سے انگریز کا خوف نکالنا چاہتا تھا۔ اس کی موت کے بعد عوام اٹھ کھڑی ہوئی اور تاج برطانیہ کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے برصغیر سے غروب ہوگیا۔
بھگت سنگھ برصغیر کی آزادی کا وہ باب ہے جس میں ہندو،مسلم،سکھ تمام لوگوں کا احترام ہے۔ وہ دشمن تھا تو صرف انگریز سامراج کا۔ اس کو مسلمانوں کے ساتھ کتنی محبت تھی اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کو آزادی کا سبق پڑھانے والا ایک مسلمان تھا۔ بھگت سنگھ کو بر صغیر کے تمام مکاتب ِ فکر نے عزت و احترام سے نوازتے ہوئے ”شہید وطن“ کا لقب دیا۔
٭٭٭٭٭