مولوی صاحبان نے کہا ”جو پکی پکائی روٹی کھائے گا اسکے ہاں اولاد نہیں ہو گی“ اُنکے مطابق یہ یہود ی سازش تھی تاکہ خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کیا جائے

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:117
بھٹو صاحب کے دور حکومت میں پکی پکائی روٹی کا پہلا پلانٹ بھی یہیں لگا جس کے بارے اس دور کے کچھ نا سمجھ لوگ اور کچھ ناواقبت اندیش مولوی صاحبان نے مشہور کر دیا تھا کہ”جو یہ روٹی کھائے گا اس کے ہاں اولاد نہیں ہو گی۔ اُن کے مطابق یہ یہود ی سازش تھی تاکہ جبراً خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کیا جائے۔“ اس روٹی پلانٹ کی تیار کردہ روٹی کو دیسی گھی لگا کر پراٹھا بنا کر کھانے کا مزا وہی جا نتے ہیں جنہوں نے یہ تجربہ کیا تھا۔میں نے کئی ماہ یہ روٹی کھائی اور مولویوں کے پراپیگنڈا کے باوجود اللہ نے مجھے اولاد کی نعمت سے نوازا۔مولوی کے فتویٰ اپنے مقاصد کے لئے ہی ہوتے تھے۔ وہ سائنس کی ہر بات کو نہ جانے کیوں جھٹلاتے ہیں جبکہ قرآن خود کہتا ہے
”آسمان اور زمین میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔“
بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے چاند پر قدم رکھنے والے پہلے شخص”نیل آرم سٹرونگ“ کو چاند پر اترنے سے یہ کہہ کر جھٹلا دیا تھا کہ کیسے ممکن ہے انسان چاند پر قدم رکھے۔ وہ کسی دنیاوی پہاڑ پر اترا ہو گا۔“ یہ بھی تاریخ ہے کہ انہوں نے قائدین کو بھی کافر بلکہ کافر اعظم کہا۔ بعد میں ان ہی کے بنائے پاکستان میں آ کر اپنی دوکانیں بھی چمکائیں اور اپنی تقاریر کا آ غازا ور اختتام انہی کے اشعار سے ہی کرتے تھے۔ان کی دنیا میں اب ریاست بھی قدم نہیں رکھ سکتی۔
والد کی مرسیڈیز؛
1978ء میں ٹھرڈ ائیر کا امتحان پاس کیا تو میرے والد نے اپنی پہلی موٹر 70 ماڈل کی کالے رنگ کی سکینڈ ہینڈ ”مرسیڈیز 280 ایس ای“ خریدی۔ ایس کلاس مرسیڈیز کی سب سے زیادہ آرام دہ موٹریں ہیں۔ کم ہی کوئی گاڑی ایسی چلتی ہو گی۔ پاکستان،عرب، امریکہ اور یورپی ممالک میں آج بھی اگر کسی ارب پتی انسان کے گیراج کا یہ موٹر حصہ نہیں تو اسے رئیس سمجھا ہی نہیں جاتا ہے۔ یہ موٹر 1974ء کی اسلامی سبراہی کانفرنس میں لیبیا کے وفد کے زیر استعمال رہی تھی۔ اس پر جھنڈا لگانے کا ڈنڈا(راڈ) بھی لگا تھا۔ اس کانفرنس کے دوران حکومت پاکستان نے صاحب حیثیت لوگوں سے درخواست کی تھی کہ اپنی بہترین لگثرری گاڑی مستعاردیں تاکہ آنے والے معزز سربراہوں مملکت کے وفود میں شامل کیا جا سکیں۔ یوں یہ موٹر لیبیا کے وفد کے پاس رہی۔ اس موٹر میں ایک نقص تھا کہ اس کے سٹیرنگ گئیر بعض دفعہ بے احتیاطی سے پھنس جاتا تھا۔ میری نانی اسی وجہ سے اس موٹرکو”کھکھر کھوکھا“ کہا کرتی تھیں اور مجھے اس سے چڑ ہوتی اور میں نانی سے اکثر لڑ پڑتاتھا۔
میں نے بناء استاد ہی موٹر چلانی سیکھی تھی۔ ابا جی کو بتایا تو کہنے لگے؛”شام کو تمھارا ٹیسٹ لوں گا۔“ اس میں میں کامیاب رہا یوں مجھے ماڈل ٹاؤن میں میں موٹر چلانے کی اجازت مل گئی۔ ڈرائیونگ کے شوق نے مجھے بہترین ڈرائیور بنا دیا۔ ایک اور حماقت بھی بتا دوں؛ ”گوجرانوالہ شہر کی نہر سے لاہور روای برج تک میں ایس کلاس مرسیڈز میں یہ مسافت1980ء میں صرف انیس(19) منٹ میں طے کی تھی۔“ یہ حماقت ناقابل یقین صداقت تھی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔