ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے مہلک اثرات

ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے مہلک اثرات
ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے مہلک اثرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 وفاقی کابینہ نے 14نومبر2012ءکے اجلاس میں ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی منظوری دی ہے۔اس سکیم کی افادیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس طرح بہت سے لوگ ٹیکس نیٹ میں شامل ہو جائیں گے اور حکومت کو ٹیکس کی مد میں بہت آمدن ہوگی،جس کے عوض بہت سے لوگوں کا کالا دھن سفید ہوجائے گا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے خدوخال اور اعدادوشمار بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو 150ارب روپے ٹیکس حاصل کرنے کے لئے 7500ارب روپے کے کالے دھن کو سفید کرنا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ 2008ءمیں بھی اس قسم کی ایمنسٹی سکیم لائی گئی تھی، جس میں 54کروڑ روپے ٹیکس حاصل ہوا تھا اور 77ارب روپے کے کالے دھن کو سفید کیا گیا تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ایسی سکیموں کے ذریعے جو کالا دھن سفید کیا یا کروایا جاتا ہے،وہ اصل میں قومی وسائل سے کرپشن اور دیگر ذرائع سے لوٹی ہوئی دولت ہوتی ہے۔مجوزہ سکیم میں صاحب اقتدار اور عوام کے خیر خواہ حکمران صرف 150ارب روپے بطور ٹیکس حاصل کرنے کے لئے قوم کے 7500ارب روپے جو غلط، غیرقانونی اور غیر اخلاقی طور پر چند گھرانوں یا اشخاص نے لوٹے ہوئے ہیں، انہیں قانونی تحفظ دینا چاہتے ہیں اور اس طرح سے حاصل کی ہوئی دولت آئندہ جنرل الیکشن میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے اور انتخابات خریدنے کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے جو ملک اور قوم کے لئے نہایت ہی خطرناک طرز عمل ہے۔ 1970ءتک ریاست کے وسائل اور ریاست کے اثاثہ جات کا اتنا تقدس تھا کہ کوئی شخص اسے ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کرتا تھا۔اس زمانے میں جب ہم اپنے گاﺅں سے سکول جاتے تھے تو راستے میں ریلوے لائن آتی تھی۔اس دور میں ریلوے ٹریک کو فکس کرنے کے لئے لکڑی کے سلیپر استعمال ہوتے تھے اور بڑے بڑے لوہے کے کیلوں سے ریلوے ٹریک کو ان پر فکس کیا جاتا تھا۔ایسے ناکارہ کیل کچھ اِدھر اُدھربکھرے پڑے ہوتے تھے اور بچے ان سے کھیلتے بھی تھے اور غریب کسان اس لوہے کو چھوٹے چھوٹے زرعی آلات بنانے کے لئے استعمال میں بھی لے آتے تھے۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ والدین کی بچوں کو تاکید ہوتی تھی کہ ایسے ناکارہ کیل بھی چونکہ حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں، لہٰذا ان کو بھی ہاتھ نہیں لگانا،کیونکہ انسان غیر قانونی کام کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے اور اسے سزا ہو جاتی ہے۔جب چند سال بعد ہم سن بلوغت کو پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ اگر کسی شخص نے شہر میں گھر بنانے کے لئے کوئی پلاٹ لینا ہوتا تو اس کی کوشش ہوتی کہ سرکاری اراضی یا قبرستان سے ملحقہ پلاٹ مل جائے، تاکہ کچھ تو خریدا ہوا پلاٹ ہوگا اور کچھ سرکار کی اراضی مفت میں اس میں شامل کرلی جائے گی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں کوئی بہتری آنے کی بجائے ہم گراوٹ کی طرف رواں دواں ہیں۔ایک وقت تھاکہ ناکارہ کیل کو ہاتھ لگانا جرم تصور کیا جاتا تھا،مگر اب ریلوے ٹریک اور ریلوے بوگیاں گم ہو جاتی ہیں، پھر بھی اسے جرم نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان میں 1970ءکی دہائی میں کچی آبادیوں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دینے کا دور آیا۔پہلی مرتبہ پنجاب کچی آبادی ایکٹ منظور کیا گیا۔اس ایکٹ کے ذریعے ایک مقررہ تاریخ سے قبل سرکاری اراضی پر قابض لوگوں کو نہایت ہی ارزاں ، بلکہ برائے نام قیمت پر ان کے زیر قبضہ اراضی فروخت کردی گئی۔یہ قانون بننے کے بعد اور مالکانہ حقوق دینے کے بعد ایسی کچی آبادیاں ختم نہیں ہوئی تھیں،بلکہ ان کی تعداد میں اتنی تیزی سے اضافہ ہوا کہ اللہ کی پناہ ۔لوگوں کو یقین ہوگیا کہ اب جس تاریخ تک کے قابضین کو مالکانہ حقوق مل رہے ہیں،کل کو یہ تاریخ بڑھا دی جائے گی اور ہمیں بھی مالکانہ حقوق مل جائیں گے۔ جہاںکہیں سرکاری اراضی خالی پڑی تھی،لوگ راتوں رات قبضہ کرکے اس پر جھونپڑیاں بنا لیتے۔ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے کہ جس خاندان کو ایک کچی آبادی میں مالکانہ حقوق مل گئے تھے، اس خاندان کے چند افراد اس جگہ پر مقیم رہے اور دوسرے چند افراد نے دوسری جگہ پر جا کر قبضہ کرلیا،تاکہ ایک نہیں دو تین مکانات کے مالک بن جائیں اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔ جو لوگ ساری عمر کی جائز کمائی سے دوچار مرلے اراضی مارکیٹ ریٹ پر خرید کرایک گھر نہیں بنا سکتے تھے،وہ یہ طریقہ وارادت اپنا کر کئی کئی گھروں کے مالک بن گئے اور سرکار کی نہایت ہی قیمتی اور بعض مقامات پر کمرشل اراضی اس طریقے سے ہتھیا لی۔یورپی ممالک میں اب بھی کچی آبادیوں کا تصورنہیں ہے کہ لوگ سرکاری املاک پر ناجائز قبضہ کرکے کچی آبادی بنا کر بیٹھ جائیں۔وہاں کی حکومت قانون کی حکمرانی قائم رکھتے ہوئے انہیں ایسی حرکت کرنے کا موقع ہی نہیں دیتی، مگر اپنے عوام کو رہائشی سہولتیں بہم پہنچانے کے لئے وہاں کی سٹی کونسلیں ملٹی سٹوری فلیٹس بتاتی ہیں، جن میں موجودہ دور کی تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں ، پھر ارزاں اقساط پر اپنے شہریوں کو مہیا کرتی ہیں۔وہاں کوئی شخص بھی بغیر گھر کے نہیں ہوتا، مگر وہ حکومتیں اس طرح لوٹ مار کی ترغیب نہیں دیتیں، بلکہ سختی سے قانون کا نفاذ کرتی ہیں۔وہاں کے عوام بھی قانون کا احترام کرتے ہیں۔اس قانونی طرز عمل سے عوام کی جائز ضروریات بھی پوری ہو جاتی ہیں اور ان کی عزت نفس بھی برقرار رہتی ہے، کیونکہ انہوں نے خیرات میں کچھ حاصل نہیں کیاہوتا، مگر ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے اس سوچ کا فقدان ہے۔ یہ آرٹیکل لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آیا ایسی ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں بنا کر ہم پاکستان کی خدمت کررہے ہیں یا لٹیروں کو ریاست کے وسائل لوٹنے کی ترغیب دے رہے ہیں؟....پہلے سال 2008ءمیں ایک ایمنسٹی سکیم آئی، اب سال 2012ءمیں دوسری ایمنسٹی سکیم آ جائے گی۔کیا آئندہ کے لئے کالا دھن کمانے والوں کا راستہ رک سکے گا یا ان کی حوصلہ افزائی ہوگی کہ قوم کا سرمایہ لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتے جاﺅ؟اسی طرح آنے والے سالوں میں تیسری اور چوتھی اسی طرح کی ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں آتی رہیں گی اور لٹیروں کا کمایا ہوا یا لوٹا ہوا کالا دھن سفید ہوتا رہے گا۔اس طرح کالا دھن کمانے والے چند خاندان امیر سے امیر تر ہوتے جائیں گے اور غریب عوام کی غربت تو ختم نہیں ہوگی، بلکہ غریب ہی ختم ہو جائیں گے۔اخباری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 78فیصد لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں اور 58فیصد ایسے لوگ ہیں ،جن کو خوراک مہیا ہونے کی کوئی سیکیورٹی نہیں ہے، یعنی اگر کسی کو دوپہر کا کھانا مل گیا ہے تو اسے یقین نہیں ہے کہ اسے رات کاکھانا بھی مل جائے گا۔ میرا حکمرانوں کو مشورہ ہے کہ ایسی ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں لانے کی بجائے نیک نیتی سے حق حکمرانی کرتے ہوئے جن لوگوں نے غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقے سے ملک کی دولت لوٹ کر یہ کالا دھن جمع کیا ہے، ان سے ملکی قانون کے مطابق یا قانون میں ضروری ترمیم کرکے یہ کالا دھن 100فیصد وصول کیا جائے،بلکہ انہیں اس جرم کی سزا بھی دلوائی جائے، تاکہ آئندہ کوئی شخص کالا دھن جمع کرنے کی جرات نہ کرے اور ریاستی اثاثہ جات محفوظ رہیں۔ایسا طرز عمل اس گھناﺅنے جرم سے باز رکھنے میں معاون ثابت ہوگا۔اگر ریاستی اثاثہ جات ایسے ہی لٹتے رہے تو ایک دن ایسا آئے گا کہ ریاستی کاروبار چلانے کے لئے بھی ریاست کے پاس وسائل نہیں ہوں گے۔ ٭

مزید :

کالم -