گالیاں دینا شریعت میں جائز عمل نہیں ہے۔ اس لئے اگر کوئی گالی دینے پر معترض ہے تو ہم اس اعتراض کو جائز سمجھتے ہیں۔ گالی دینا بہرحال ایک کبیرہ گناہ ہے اور اس سے اللہ اور اس کے رسولؐ کے صریح احکام کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، مخالفین کے لئے گالیوں کی زبان استعمال کرنا قابل ستائش نہیں ہے۔ چہ جائیکہ اس عمل کو بزعم خویش دلائل شرعیہ سے ہی ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔
فیس بک پر اس عمل کے دفاع میں ایک تحریر گردش کر رہی ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ اگر ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لئے گالیاں دی جائیں تو یہ درست ہے۔ یہ فقیر اس تحریر سے متفق نہیں ہے اور اس کا شرعی جائزہ اس غرض سے لینا ضروری سمجھتا ہے کہ اب یہ مسئلہ کسی کی ذات کا نہیں رہا بلکہ شریعت اسلامیہ کا بن گیا ہے۔
اگر شریعت میں ایسا استثنیٰ درحقیقت موجود ہے تو پھر معترضین کو یہ بات سمجھنی چاہیے۔ بصورت دیگر قارئین کو شریعت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے اجتناب کرنا چاہیے اور اس حد تک نہیں جانا چاہیے کہ اپنی کسی محبوب شخصیت کے دفاع کے لئے شریعت کی باطل تعبیر کرنی شروع کر دی جائے۔
یہ فقیر اس حوالے سے اپنا موقف چند روز تک شیئر کرے گا۔ اب چند باتیں ان صاحبان علم کی خدمت میں جو محض گالیاں دینے کی وجہ سے دوسری انتہا کی طرف چلے گئے ہیں، وہ کسی شخص کے قابل مدح جذبے اور مقصد کو اس کی اخلاقی کمزوری کے تناظر میں ہی دیکھ رہے ہیں اور محض اس بنیاد پر ان کے اچھے مقصد اور صالح جذبے کو مطعون کر رہے ہیں، دراصل ان کا یہ طرز عمل خود ان کی انتہا پسندی اور شدت پسندی کا مظہر ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ان کو اس شخص کی درجنوں خوبیاں نہ جانے کیوں نظر نہیں آ رہیں، جن کی اپنے اور پرائے سب تعریف کر رہے ہیں، ان کی سہولت کے لئے میں یہاں بعض کی نشاندہی کئے دیتا ہوں۔
1۔ موصوف پر دیگر مذہبی قائدین کی طرح حکومت سے مراعات و مفادات لینے اور مال بنانے کا کوئی الزام نہیں ہے۔
2۔موصوف نے بے سروسامانی کے عالم میں دھرنا دیا ہے لوگوں کے درمیان بیٹھنے کو پسند کیا ہے انہی کے درمیان سونا، اٹھنا، بیٹھنا اور شرب و طعام اور نمازیں پڑھنے کے معمولات جاری رکھے ہیں۔
3۔دھرنے کے کوئی خفیہ مقاصد سامنے نہیں آ سکے، اگر ایسا ہوتا تو اب تک مذاکرات کامیاب ہو چکے ہوتے، اب تک ہونے والے مذاکرات کے ادوار شفاف طریقے سے آگے بڑھے ہیں، مطالبات سے جزوی اختلافات کے باوجود کسی نے مذاکرات کی شفافیت پر انگلی نہیں اٹھائی اور نہ ہی دھرنے کے درپردہ مقاصد سامنے لائے گئے ہیں۔
4۔ طویل دھرنے کے باوجود سہولیات سے دور قائدین ہشاش بشاش ہیں۔ ان پر خوف و ہراس کے کوئی آثار نہیں ہیں، اگرچہ ہر روز آپریشن کی تلوار ان کے سر پر لٹکائی جاتی ہے۔
5۔وہ آپریشن پر مزاحمت کا ارادہ بھی نہیں رکھتے بلکہ وہ آپریشن کی صورت میں اپنی گرفتاری اور جان دونوں دینے کے لئے تیار ہیں۔ ان کے حامی بھی پُرامن اور غیر مسلح ہیں۔
6۔دھرنے میں کوئی خرافات نظر نہیں آتیں، خود قائدین کی سادگی و بے تکلفانہ بودوباش کے مظاہر دیکھنے کو مل رہے ہیں، ایک حد تک ان کی ظاہری اسباب سے بے غرضی بھی نمایاں طور پر عیاں ہو رہی ہے۔
الغرض باتیں اور بھی ہیں، لیکن اس بات پر اپنی معروضات ختم کرتا ہوں کہ گالیاں دینے والے کو آپ زیادہ سے زیادہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کہہ سکتے ہیں، جبکہ مخبر صادق علیہ الصلوٰۃ و تسلیم نے فرمایا کہ مسلمان کو گالیاں دینا فسق ہے۔
ترجمہ حدیث صحیح بخاری
کسی مسلمان کو گالی دینا فسق وفجور ہے اور اس کا قتل کفریہ فعل ہے۔
یہ تحریر ہم نے من و عن نقل کی ہے جو محترم بزرگ محمد خلیل الرحمن کی فیس بک پر پوسٹ کی گئی ہے۔ ان کی طرف سے عقل و فہم کی اور بھی کئی باتیں چل رہی ہیں تاہم یہ تحریر ایک خاص مسئلہ کی نشاندہی کے حوالے سے ہے اور ہم نے اسے جوں کا توں نقل کرنا بہتر جانا ہے، دھرنا جس حوالے سے دیا گیا وہ بذات خود بہت حساس اور ایمان کامل کا معاملہ ہے کہ جب تک نبی اکرمؐ پر مکمل ایمان اور یقین نہ ہو بندہ مسلمان ہی نہیں کہلا سکتا، اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں جو کوتاہی ہوئی اسے تو بہرحال درست کر دیا گیا ہے، اب مسئلہ صرف اس فرد کی نشاندہی اور سزا کا ہے جس سے یہ غلطی یا سہو ہوا، اسے سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ حکومت نے تمام تر عوامی پریشانی کے باوجود تحمل سے کام لیا ہے اور اب تک بات چیت چل رہی ہے۔
مظاہرین اور قائدین کا مطالبہ اب سمٹ کر وفاقی وزیر قانون کی برطرفی یا استعفے تک رہ گیا ہے حالانکہ پہلے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو بھی برطرف کرنے کا مطالبہ تھا کہ مبینہ طور پر انہوں نے مرزائیوں کو بھائی قرار دیا تھا۔ شان رسالتؐ کا مسئلہ ہو اور مسلمان جذباتی نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں، لیکن جو کچھ دھرنے کی وجہ سے ہو رہا ہے اور جو ویڈیو قائدین دھرنا کی وائرل ہوئی ہیں وہ بذات خود گناہ کبیرہ ہیں یہ بات ہمارے محترم محمد خلیل الرحمن نے بھی تسلیم کر لی اور ساتھ ہی ساتھ حدیث نبویؐ بھی بتا دی ہے اور یہ بھی کہہ دیا ہے کہ گالی درست نہیں، تاہم ساتھ ہی ساتھ محترم مولانا کو الاؤنس بھی دیا کہ شان رسالتؐ کے بارے میں ان کا جذبہ صادق ہے۔
محترم سے یہی سوال ہے کہ جب گالی دینا جائز نہیں اور یہ فسق و فجور ہے تو پھر جو شخص اس کا مرتکب ہوتا ہے، اس کے لئے جزا و سزا کیا ہے اور اس کا تعین بھی تو ہونا چاہیے، بے شک ہر دو امور کو الگ الگ کر دیں۔ پھر بھی یہ سوال تو رہے گا کہ قیادت کرنے والا اگر فسق و فجورکا مرتکب ہے تو پھر اس کی قیادت کیا رنگ لائے گی؟
اس سلسلے میں پوری حکومت اور انتظامی مشینری الٹے پاؤں دفاعی حیثیت میں ہے۔ ان کے پاس کوئی جوابی جواز نہیں بن پا رہا، ماسوا اس امر کے کہ معاملہ کو مذاکرات کے ذریعے خوش اسلوبی سے طے کیا جائے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ حضرت محترم کی جو ویڈیو وائرل ہوئی اس میں ان کی گفتگو کس اعلیٰ معیار کی دلالت کرتی ہے ہے اس کا کوئی جواب نہیں محترم محمد خلیل الرحمن نے خود ہی گالی کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے اور یہ درست بھی ہے تو بہتر ہوتاکہ موصوف خود اس بارے میں کوئی حتمی رائے بھی دیتے کہ اس کا کوئی اچھا تاثر نہیں بن پایا اور اس سے یقیناًاچھے اثرات مرتب نہیں ہو پا رہے۔
یوں بھی عوام کی مشکلات کے پیش نظر بڑے بڑے دینی رہنماؤں نے دھرنا کو احسن طریقے سے لپیٹنے کی تجویز دی ہے لیکن یہاں بالکل جذباتی فضا پائی جارہی ہے، اس سے کوئی بڑا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ اب بھی اس معاملے کو جلدی نمٹا دینا ہی ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔
اس امر میں بھی کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ دھرنے کی وجہ سے لاکھوں شہری متاثر ہو رہے ہیں اور اس کے جلد اختتام پذیر نہ ہونے کی وجہ سے مزید بے چینی پیدا ہو رہی ہے اور پھر مولانا خادم رضوی کا یہ اعلان بھی وائرل ہو رہا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات کے لئے اپنی جماعت رجسٹر کروا کے الیکشن لڑیں گے۔
اس صورت میں باتیں تو ہوں گی۔ اس کا خیال خود ان حضرات کو ہونا چاہیے چہ جائیکہ وہ ہر سوال کے جواب میں گالی دیں، اب تو سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا۔ وہاں دلائل دیں۔