باباجی! جوتیاں مار لیں پر اللہ کے واسطے ایسی بات مت کریں، میں آپ سے حساب کتاب لوں گا؟ یہ سب کچھ مجھ سے زیادہ آپ کا ہے،گناہ گار مت کریں
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:25
”باباجی! جوتیاں مار لیں پر اللہ کے واسطے ایسی بات مت کریں۔ آپ نے سوچا کیسے کہ میں آپ سے حساب کتاب لوں گا۔ یہ سب کچھ مجھ سے زیادہ آپ کا ہے۔ مجھے گناہ گار مت کریں۔“ واہ واہ یار! کیا لوگ تھے۔ کتنی محبت، کتنا پیار، کتنا اعتماد تھا۔ آج تو یہ سب باتیں افسانہ لگتی ہیں۔ چند ٹکوں کی خاطر بھائی بھائی کو قتل کر دیتا ہے۔ جائیداد کی خاطر بھائی بھائی کا دشمن بناہے۔ اخبار کی خبریں روز جائیداد کی خاطر بھائی بھائی کا قاتل، حد تو یہ ہے کہ چندٹکوں کی خاطر ماں باپ کا قتل، معصوم بچیوں سے لے کر عورتوں کی عزتیں روز لوٹی جاتی ہیں۔ زن، زر اور زمین نے اس ملک کی معاشرتی قدروں کو اس طرح کمزور اور کھوکھلا کر دیا جس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ محبت کی جگہ نفرت، اعتماد کی جگہ بے اعتمادی نے لے لی ہے۔ سچ ناپید ہے اور جھوٹ ہر طرف بکتا ہے۔ جو آج دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے ویسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ واہ رے زمانے تجھے کس کی نظر لگی ہے۔ خوداری، عزت اور غیرت جیسے الفاظ اس معاشرے سے ناپید ہو چکے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے پچھلی چار دھائیوں میں ہی ہوتے دیکھا ہے۔ ہم وہ نسل ہیں جس نے اچھے زمانے کا ڈوبتا سورج دیکھا اور مطلبی دنیا کا طلوع ہوتا سورج چمکتا بھی دیکھا۔ رشتوں کی ایسی بے توقیری اور معاشرتی اقدار کی ایسی تنزلی کبھی بھی نہ تھی۔ بدقسمتی ہے ہم سب کی۔ اس طرح کی افراتفری کبھی بھی معاشرے میں نہ تھی۔ خون تک سفید ہو چکے ہیں۔
میرے دادا وقت کے بہت پابند تھے اور وقت کی پابندی میرے خاندان کا وطیرہ رہی ہے۔ انکل سعید کہا کرتے تھے؛”یار! میرے میٹنگ نوٹس پر وقت کو انڈر لائن کرکے ساتھ لکھا ہوتا تھا؛nine o clock means nine oclockوقت کی پابندی کی بہت سی مثالیں آنے والے صفحات میں آپ کی نظر سے گزریں گی۔
ابا جی اکثر کہا کرتے تھے؛”بیٹا! وقت کی قدر بھی بڑے انسان کی پہچان ہوتی ہے۔قائد اعظم بھی وقت کے بڑے پابند تھے۔ وہ کسی اجلاس، تقریب یا عدالت میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا دیر سے پہنچیں۔ نپولین بونا پارٹ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے”میں ہر جگہ وقت سے ایک منٹ پہلے پہنچتا تھا لیکن واٹر لو کی جنگ میں مجھے ایک منٹ کی تاخیر ہو گئی میں جنگ ہی نہیں زندگی بھی ہار گیا۔“یادرہے واٹر لو کی جنگ میں شکست کے بعد وہ ”سینٹ ہلینا“ (Saint Helena)کے جزیرے میں قید ہوا اور وہیں دوران قید انتقال کر گیا۔ابا جی کہا کرتے تھے؛”بیٹا! وقت کو ہمیشہ سینگ سے پکڑتے ہیں دم سے نہیں۔“
وہ چیز مت مانگو جو تم ڈیزرو نہیں کرتے؛
دادا کی اصول پابندی کی ایک اور بات مجھے یاد آ گئی ہے۔واہ یار!کیا شخصیت تھے وہ۔ بے شک ان کے پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں کو ان پر ناز ہے۔ میرے والد ریاضی کے مضمون میں بہت کمزور تھے البتہ جیومیٹری انہیں خوب آتی تھی جبکہ میرے دادا تو ریاضی کے ماہر تھے۔ میرا چھوٹا بیٹا احمد بھی ریاضی میں خوب مہارت رکھتا تھا جبکہ میں اس مضمون میں اپنے والد پر گیا تھا۔ والد کا دسویں جماعت کا بورڈ کا امتحان تھا اور بقول ابا جی اس سال ریاضی کا پرچہ کچھ آؤٹ آف سلیبس تھا اور مشکل بھی۔ابا جی کا تکا لگا اور پرچہ پچاس نمبر کا ٹھیک ہو گیا۔ اس پرچے کے خلاف احتجاج شروع ہوا تو بورڈ والوں نے طالب علموں کے لیے 2 آپشنز دیں۔ پہلی دوبارہ امتحان دے دیں دوسری بورڈ پہلے پرچے میں 10 اضافی نمبر دے گا۔ ابا جی نے دادا کے کہنے پر پہلا آپشن لیا کہ اگر مشکل پرچے میں 50 نمبر آئیں ہیں تو دوسرے میں زیادہ آئیں گے۔ بہرحال دوباہ پرچہ دیا تو وہ صرف 20 نمبر کا ٹھیک ہوا۔دادا جنہیں اس روز دورے پر کہیں جانا تھا ابا جی کے انتظار میں تھے۔ وہ کافی دیر سے گھر لوٹے تو دادا نے تاخیر کی وجہ پوچھی۔ جواب دیا؛”اباجان! صرف بیس نمبر کا پرچہ درست ہوا ہے۔مجھے اس شخص کا پتہ معلوم کرنے میں دیر لگی جس کے پاس پرچے چیک ہونے کے لیے گئے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔