احساس شرمندگی ہمارے معاشرے میں عام ہے، یہ ایک ایسا روایتی ہتھیار ہے جس کے ذریعے دوسرے افراد کا استحصال کیا جاتا ہے اور محض وقت کا ضیاع ہے
مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:85
اس مکالمے میں بیٹے نے اپنی ماں کی طرف سے کسی بھی قسم کا احساس شرمندگی اور ندامت پیدا کرنے یا ہونے سے انکار کردیا۔ یہ بیٹا اپنے آپ کو واضح طور پر ایک غلام سمجھ رہا تھا اور اس غلامی سے نجات پانے کی اس کی ہر کوشش اس کی والدہ کی طرف سے اس میں احساس شرمندگی پیداکرنے کے ذریعے ناکام بنا دی جاتی۔ اس کی والدہ اسے اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔ بیٹے کے سامنے دو راستے تھے یا تو وہ اپنی ماں کی باتوں کے جواب میں نئے اور مختلف روئیے کا اظہار کرے یا پھر خودکو زندگی بھر کے لیے اپنی والدہ کے ہاتھ میں رہنے دے۔
بیٹے نے جو جواب دیئے، ان کا بغور جائزہ لیجیے۔
یہ جوابات اس حوالے سے دیئے گئے کہ ماں اپنی ان کیفیات کی خود ذمہ دار ہے۔ اس قسم کا احساس شرمندگی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ یہ ایک ایسا روایتی ہتھیار ہے جس کے ذریعے دوسرے افراد کا استحصال کیا جاتا ہے اور محض وقت کا ضیاع ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فکرمندی سکے کا دوسرا رخ ہے اور شرمندگی و ندامت کے عین یکساں ہے لیکن فکرمندی کا تعلق بطور خاص مستقبل سے ہے اور ان خوفناک امور سے ہے جو مستقبل میں رونما ہو سکتے ہیں۔
”فکرمندی“ پر ایک گہری نظر
فکر کرنے کے لیے کوئی بھی چیز موجود نہیں ہے۔ قطعی طور پر کسی بھی چیز کے متعلق فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی سے شروع کرتے ہوئے آپ اپنی باقی تمام زندگی مستقبل کے متعلق فکر کرنے میں گزار سکتے ہیں اور آپ کی یہ فکرمندی کسی بھی چیز کو تبدیل نہیں کر سکے گی۔ یاد رکھیے فکرمندی کی تعریف یہ ہے کہ آپ اپنے موجودہ لمحات (حال) میں غیرفعال اور بے عمل ہو جاتے ہیں۔ آپ کو بطو رخاص یہ جائزہ لینا چاہیے کہ آپ اس فکرمندی کو مستقبل کی منصوبہ بندی کے ساتھ نتھی نہ کریں۔ اگر آپ مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور آپ کے موجودہ لمحات (حال) مستقبل کی منصوبہ بندی کے لحاظ سے ایک موثر کردار ادا کرتے ہیں تو پھر آپ کا یہ رویہ فکرمندی پر مبنی نہیں ہے۔ فکرمندی سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنے موجودہ لمحات (حال) میں مستقبل کی فکر کے باعث غیرفعال اوربے عمل بھی ہو جاتے ہیں۔
جس طرح ہمارا معاشرتی معمول، احساس ندمت اور شرمندگی پید ا کرنے میں مددگار اور مفید ثابت ہوتا ہے، بالکل اسی طرح فکرمندی کے احساس کو نمایاں اور اجاگر کرنے میں معاشرتی روایات اور اقدار مفید و مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ جب آپ کسی شخص کے متعلق فکرمندی کا اظہارکرتے ہیں تو آپ کا یہ پیغام تمام معاشرے میں پھیل جاتا ہے تو پھر آپ اس شخص کے متعلق فکرمندی میں مبتلا ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں لہٰذا پھر آپ اس قسم کے فقرا ت سنتے ہیں: ”بیشک میں فکرمندی میں مبتلا ہوں، یہ ایک فطری عمل ہے۔“ یا”مجھے تم سے محبت ہے اس لیے مجھے ہر دم تمہاری فکر لگی رہتی ہے۔“ پس آپ کسی کے لیے اپنا پیار و چاہت ثابت کرنے کے لیے اس کے لیے ایک مخصوص مقدار میں احساس فکروتردد کا اظہار کرتے ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔