نظریاتی جنگ ہار رہے ہیں؟
میں نے جب جمیل کو بتایا کہ یہ میرے والد کی قبر ہے ۔ میرے والد نے تین جنگوں میں حصہ لیا اور اکثر مجھے اپنی عسکری زندگی کے بارے میں بتاتے ہوتے تھے ۔ میں نے ان کے پاس میڈل بھی دیکھے تھے ۔ انہیں ڈوگرے گرفتار کر کے لے گئے تھے ۔ وہ ڈوگرہ سپاہیوں کے حصار کو توڑ کر بھاگ گئے تھے ۔ وہ ایل ۔ او ۔ سی پر بھارتی فوج کے مورچوں میں غلطی سے گھس گئے تھے ۔ کچھ دن قید میں رہنے کے بعد وہاں سے بھی حصار توڑ کر بھاگ آئے تھے ۔ میرے والد کے بقول انہوں نے اس وقت کے ہتھیار وں سے بھارتی فوج کا طیارہ مار گرایا تھا ۔ میرے والد کہتے تھے کہ انکی زندگی کی بڑی خواہش تھی کہ وہ شہید کی موت مریں لیکن وہ غازی واپس لوٹے ۔
انکے بقول یہ اللہ کی رضا تھی ۔ میرے والد آزادی کی جنگ لڑتے رہے ۔ انہوں نے ا پنی عسکری زندگی کو نہ تو سیاست کے لیے بیچا اور نہ اسکی باقاعدہ تشہیر چاہی ۔ انکے بقول وہ ایسے سینکڑوں جابنازوں کے ساتھی تھے جن میں سے بے شمار شہید ہوگئے تھے ۔ بہت سے ساتھی جسمانی اعضا سے محروم ہوگئے تھے ۔ میرے والد بتاتے تھے کہ ڈوگرہ راج میں انہیں آزادی حاصل نہیں تھی ۔ انکی عزتیں ، عصمتیں اور انکی عزت نفس محفوظ نہیں تھی ۔ وہ کشمیر کی جنگ آزادی کا ذکر بہت کثرت سے کرتے تھے ۔ اس قدر زیادہ کرتے تھے کہ میں اپنی بچپن کی یاداشت پر پوری کتاب ہی نہ لکھ دوں ۔
جمیل میری یہ باتیں سنتے رہے اور دو تین بار کروٹ بدلی ۔ مسکرائے بھی ۔ جمیل سے میں نے تو کبھی بحث نہیں کی لیکن میں نے جمیل کو دوسروں سے بحث کرتے سنا ہے ۔ وہ خود کو آزاد نہیں سمجھتے ۔ وہ اکثر اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ سرگرمی کرتے رہتے ہیں ۔ وہ اسے سیاسی سرگرمی کہتے ہیں ۔ وہ مادر وطن کے قومی نظریاتی سیاسی لوگوں کو برا بھلا کہتے ہیں ۔ وہ قومی نظریاتی سیاسی پارٹیوں کو جھوٹ اور فراڈ کہتے ہیں ۔ وہ خود کو آزاد نہیں سمجھتے ۔ وہ کہتے ہیں ان کا نظریہ الگ ہے ۔ ان کا نظریہ سچا ہے ۔ درست ہے ۔ وہ مذاکرے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اب مشکل ہوتا لگ رہا ہے کہ ہم انہیں چپ کراتے پھریں ۔ وہ نعرے بھی مارتے ہیں ۔ گالی گلوچ پر بھی اتر آتے ہیں ۔ انہیں ملک کے سیاسی عمل پر اعتبار نہیں ۔ اعتماد نہیں ۔
میں نے سوچا جمیل کو بتاوں کہ سیاسی عمل سے مایوسی کا یہ مطلب نہ لو کہ اپنی آزادی کو فیک سمجھنے لگو ۔ جمیل بولے تو اس ناکام سیاسی نظام کو کس کا تحفظ حاصل ہے ؟ میں نے پوچھا ناکام سیاسی نظام کیسے ؟ جمیل بولے نظر نہیں آتا آپ کو کہ ہم پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں ۔ ہمارے ذرائع آمد و رفت کتنے ناقص ہیں ۔ ہم بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ میں نے عرض کی آپ ترقی پذیر ملک کے ایک دور دراز دیہات میں رہتے ہیں ۔ آپ اپنے ذرائع آمدو رفت کا موازنہ ایک شہر سے تو کرنے سے رہے ۔ دور درا ز دیہات میں ذرائع آمدورفت کی تعمیر اور ترویج شہروں کی نسبت سست ہوتی ہے ۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ جیسے نوجوان قومی نظریے سے منحرف ہوجائیں ۔
جنگ آزادی پر شک و شبہ کرنے لگیں ۔ شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کو شک کی نظروں سے دیکھیں ۔ آپ کو ملک کے سیاسی عمل اور سیاسی نمائندوں پر اعتماد نہیں رہا اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ آپ سیاسی عمل کو یا جمہوری پراسیس کو درست تناظر میں نہیں دیکھ رہے ۔ ہمارے سیاستدان اچھے لوگ ہیں اور وہ قومی سیاست اور جمہوریت کو بہتر سے بہتر کررہے ہیں ۔ویسے کس کی مجال ہے کہ وہ یہ کہے کہ ہم نظریاتی جنگ اپنی ہی نسل سے خدانخواستہ ہار رہے ہیں ؟
اس میں کس کس کا اور کہاں کہاں قصور ہے ؟ سیاسی نمائندوں کا قصور تو بالکل بھی نہیں لگتا ۔ ماشا اللہ خوش گفتار اور ذہین سیاستدان ہیں ہمارے ۔ بیوروکریسی کا بھی نہیں لگتا ۔ گلوبلائیزیشن کا قصور ہوگا شاید ۔ پسماندگی اور بیروزگاری بھی وجہ ہوسکتی ہے ۔ ملک دشمن قوتوں کی کاوشیں شاید رنگ لے آئی ہیں ۔ میں نے سوچا اب جمیل کو یہ بتانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ اس کا نظریہ غلط ہے ۔
میں نے عرض کی کہ دیکھو جمیل جب جسم میں وائرس گھس آئے تو جسم بیمار پڑجاتا ہے ۔ جسم بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ آپ ٹیبلیٹس لیتے ہو اور آرام کرتے ہو ۔ پھر زیادہ پر اثر دوا استعمال کرتے ہو ۔ ڈاکٹر کے پاس چکر لگاتے ہو ۔ ہسپتال میں داخل ہوتے ہو ۔ آپ کوشش جاری رکھتے ہو تا کہ روبہ صحت ہوجاو ۔اسی طرح جب کمپیوٹر کے آپریٹنگ سسٹم میں وائرس گھس آئے تو آپ اینٹی وائرس رن کرتے ہو اور پھر بھی کمپیوٹر روبہ صحت نہ ہو تو آپریٹنگ سسٹم دوبارہ انسٹال کرتے ہو ۔
جمیل آپ نے کبھی سوچا ہے ہمار ے دماغ کا فنگشن کمپیوٹر مشین سے بہت ملتا جلتاہے ۔ ا س میں بھی بگز آسکتے ہیں ۔ بر ین واشنگ کی اصطلاح تو سن رکھی ہوگی آپ نے ۔ ان ساری کنفیوژن کا علاج آسان نہیں ہوگا اور ہاں میں آپ کے نظریے کو غلط نہیں کہتا ۔ ایک امکانی صورت حال سے آپ کو آگاہ کررہا ہوں ۔
ویسا اس نظریاتی جنگ کو کون کون لوگ سنجیدہ لیتے ہیں ۔ مین سٹریم سیاسی جماعتیں اور انکے نمائندے اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں کیا ؟ مجھے تو الجھن ہے کہ بیٹا باپ کے بارے میں یقین کرلے کہ اس نے اپنی زندگی جھوٹ فراڈ کے پیچھے بھاگتے گزار دی ہے ۔ اس نے جتنے ووٹ ڈالے جھک ماری ہے ۔ اس نے جس آزادی پر فخر کیا ہے وہ آزادی تھی ہی نہیں ۔ جمیل بتاتے ہیں کہ اس کا نظریہ بہت مقبول ہے اور دن بدن مقبول سے مقبول ہورہا ہے ۔ بقول جمیل کے لوگ حق اور سچ کو جان چکے ہیں اور جوق در جوق اسکی صفوں میں شامل ہورہے ہیں ۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔