ماہر اقبالیات تحسین فراقی کے خلاف جھوٹا مقدمہ

9نومبر2021ء کو ایوان صدر میں جب ڈاکٹر عارف علوی صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ڈاکٹر تحسین فراقی کو کتاب اقبال دیدہ بینائے قوم تصنیف کرنے پر صدارتی ایوارڈ دیا اور ایوارڈ لیتے ہوئے یہ تصاویر میں نے مختلف اخبارات میں دیکھیں تو مجھے چوری کے مقدمہ کی وہ ایف آئی آر یاد آگئی جو پچھلے ماہ ہی ڈاکٹر تحسین فراقی کے خلاف تھانہ گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ میں درج کروائی گئی ہے۔ جس مقدمے کی بنیاد ہی جھوٹ، بدنیتی اور گھناؤنی سازش پر رکھی گئی ہو اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چاند پر خاک ڈالو اپنے منہ پر پڑے۔ اس مقدمے کا ملزم تحسین فراقی ہی معصوم، بے گناہ اورمظلوم نہیں بلکہ مدعی مقدمہ بھی رحم اور ترس کے قابل ہے کیونکہ مدعی مقدمہ محض ایک مہرہ ہے جو کسی اور کے مذموم مقاصد کی خاطر استعمال ہواہے۔ مدعی فضل عباس ولد محمد اسماعیل نے ایف آئی آر میں یہ لکھوایا ہے کہ ان کے خاندان کے پاس میر مونس کی شاعری کا ایک مخطوطہ محفوظ تھا۔ تحسین فراقی نام کے ایک شخص ان کے گھر آئے اور بتایا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ تحسین فراقی نے میر مونس کا قلمی نسخہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ مدعی مقدمہ نے تحسین فراقی کو مذکورہ قلمی نسخہ دکھایا اور خود چائے کے انتظام کے لیے گھر کے اندر چلا گیا۔ اس دوران تحسین فراقی وہ قلمی نسخہ لے کر غائب ہوگئے۔ مدعی مقدمہ فضل عباس کی کہانی کا اگر کسی تحقیق و تفتیش کے بغیر سرسری جائزہ ہی لیاجائے تو یہ جھوٹ اور حقائق کے خلاف ثابت ہوجاتی ہے۔ مدعی فضل عباس ڈاکٹر تحسین فراقی کو جانتا تک نہیں۔ تحسین فراقی خود ہی اپنا نام اور پنجاب یونیورسٹی کا حوالہ بتاتے ہیں اور میر مونس کی شاعری کا قلمی نسخہ ”چرانے“ سے پہلے اپنا نام اور شناخت بتانا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ مدعی مقدمہ کو چوری کا مقدمہ درج کروا تے ہوئے کوئی مشکل یا پریشانی پیش نہ آئے۔
یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ مدعی مقدمہ کے خاندان میں دادا پردادا سے میرمونس کے جس قلمی نسخہ کے ہونے کا ایف آئی آر میں ذکر ہے وہ مدعی مقدمہ نے خود بھی کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ جس طرح مدعی مقدمہ نے اپنی پوری زندگی میں ڈاکٹر تحسین فراقی کو کبھی نہیں دیکھا۔ خود تحسین فراقی نے بھی آج تک مدعی مقدمہ فضل عباس کی شکل دیکھی ہے اور نہ ہی اس کے گاؤں کی تحسین فراقی کو کچھ خبر ہے۔ گڑھ مہاراجہ میں بھی کبھی تحسین فراقی کاجانا نہیں ہوا۔ خود ڈاکٹر تحسین فراقی سے جب میں نے یہ استفسار کیا کہ آپ کبھی ضلع جھنگ میں گئے ہیں تو انہوں نے اپنے حافظے پر زور دیتے ہوئے بتایاکہ 36یا37سال پہلے وہ سلطان باہو ؒ کے مزار پر حاضری کے لیے جھنگ گئے تھے۔ اپنی روحانی تسکین کے لیے جھنگ کا سفر کرنے والے تحسین فراقی کو کیا معلوم تھاکہ 36یا 37سال بعد جھنگ کی تحصیل احمد پور سیال کے ایک تھانہ گڑھ مہاراجہ میں ان کے خلاف چوری کا ایک جھوٹا مقدمہ درج کروایا جائے گا۔ ایک ایسے مدعی کی طرف سے جس کے ساتھ ان کی نہ کبھی ملاقات ہوئی ہے، نہ کوئی آمنا سامنا اور مکالمہ ……ایک ایسا نابغہئ روزگار شخص جس نے اپنی تحقیق و تنقید اور شاعری سے اردو ادب کوبہت کچھ دیا ہے اور اقبالیات کے موضوع پر اپنے کام کے حوالے سے تو تحسین فراقی کامقام ومرتبہ ہی بہت منفرد اور ممتاز ہے۔
وہ ایک خلاق ذہن کے ماہر اقبالیات ہیں۔ کسی کو یوں ہی ماہر اقبالیات کہنا بہت آسان ہے مگر صحیح معنوں میں عمدہ اور معتبر ماہرین اقبالیات کی تعداد بہت کم ہے۔ اور تحسین فراقی کامعتبر ماہر اقبالیات ہوناایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اقبالیات اور اردو ادب بلکہ فارسی ادب میں تحسین فراقی کی وسعت مطالعہ،بصیرت اور خرد افروزی کاحوالہ دے کر میں تحسین فراقی کے لیے کسی رعایت کاطلب گارنہیں۔ مگر ایک شخص جو 36یا37سال پہلے جھنگ گیاتھا اور پھر اس کے بعد وہ کبھی جسمانی طورپر جھنگ یا گڑھ مہاراجہ میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اس نے کسی فضل عباس کے گھرمیں چوری کیسے کرلی۔ ڈاکٹر تحسین فراقی پر یہ الزام تو عائد کیاجاسکتا ہے کہ انہوں نے اردو ادب کے ہزاروں طلبہ اورطالبات کے سینوں کو علم کے نور سے منور کیا۔ اقبالیات اور اردو ادب میں پی ایچ ڈی کے سینکڑوں سٹوڈنٹس کی راہنمائی کی لیکن ان کے خلاف چوری کا الزام جھوٹا، لغو اور بے بنیاد ہے اور جس نے بھی یہ من گھڑت کہانی جوڑی ہے اس نے اپنے سفلہ پن کا ثبوت دیا ہے۔
جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل برادر م امیرالعظیم نے براہ راست آئی جی پنجاب پولیس کو درخواست دی ہے کہ وہ اس جھوٹے مقدمے کی اعلیٰ سطح پر تحقیق و تفتیش کروائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کو انصاف ملنا چاہیے اور اس اصل مجرم تک بھی ضرور پہنچنا چاہیے جس نے ایک مہرہ کھڑا کرکے ایک محترم اور ممتاز ادبی شخصیت کی پگڑی اچھالنے کی کوشش کی ہے۔ میرا یہ یقین ہے کہ وہ شخص چاہے جتنا بھی بااثر ہو آخر کار ضرور ذلیل و رسوا ہو گا جس نے ایک شریف النفس اور نیک سیرت انسان کی عزت پر حملہ کرکے اس کا دل دکھایاہے۔ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنے ایک قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ میں یہ رٹ دائر کررکھی ہے کہ انہیں مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر کے منصب سے علیحدہ کرنا ایک غیر قانونی اور خلاف ضابطہ فعل ہے مگر یہ عمل بہت افسوسناک بلکہ شرمناک ہے کہ تحسین فراقی کو ہائی کورٹ سے اپنی رٹ واپس لینے کے لیے انہیں ذہنی طور پر پریشان کیاجائے اور ان کے خلاف چوری کاایک جھوٹا مقدمہ درج کروادیاجائے۔ آئی جی پنجاب پولیس کو اس مقدمہ کی تفتیش کروانے کے عمل میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔