بھیک مانگنے والوں نے ملک کی ساکھ اور سلامتی داؤ پر لگا دی؟
میں نے اخبار میں ایک خبر پڑھی لاہور ٹریفک اشاروں پر بھکاریوں کا قبضہ، گاڑیوں کی آمدو رفت متاثر۔ یہ خبر پہلی دفعہ شائع نہیں ہوئی،25سال سے زائد عرصہ سے بطور صحافتی طالبعلم کی حیثیت سے پڑھتا چلا آ رہا ہوں سوال تو بنتا ہے ملک بھر میں ایک روزنامہ کے سٹی صفحہ کی شہ سرخی پر کیوں سوچنے پر مجبور ہو گیا اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے لاہور کی خبروں میں نمایاں خبر کی تفصیل پڑھتے ہیں۔رپورٹر بتاتے ہیں شہر لاہور کے ٹریفک کے اشارے بھکاریوں کے سپرد کر دیئے گئے ہیں۔ سیف سٹی کیمرے میں لاہور کی ٹریفک میں روانی برقرار رکھنے میں ناکام دکھائی دینے لگے ہیں۔ مسلم لیگ ہاؤس چوک پر لگے ٹریفک سگنل کے گرد چاروں اطراف60سال سے زائد عمر کے بوڑھے خواتین اور کم عمر بچوں کو ساتھ لے کر مائیں بھی بھیگ مانگنے لگیں۔
سگنل سرخ ہوتے ہی گاڑیوں کے گرد بھکاریوں نے پیسے مانگنا معمول بنا لیا اشارہ کھلنے پر بزرگ خواتین واپس اپنی مقررہ جگہ پر جانے میں وقت ضائع کرتے ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک روانی متاثر ہونے سے رش بڑھ جاتا ہے، گاڑیاں، رکشے، موٹر سائیکلیں زیادہ دیرکھڑے ہونے سے دھواں پھیلتا ہے اور سموگ کاباعث بن رہا ہے۔ساتھ رپورٹر لکھتے ہیں ٹریفک پولیس،ڈولفن اور پیرو فورس تینوں ادارے بھیک مانگنے والوں کو روکنے میں ناکام ہو گئے۔ گلبرک،حسین چوک، ہال روڈ، مسلم ٹاؤن بھیکے والا چوک، کریم بلاک چوک،پنجاب اسمبلی چوک پر کچھ اس طرح کی صورتحال کے باعث ٹریفک معمول سے ہٹ کر آہستہ ہونے پر مجبور ہو گئی ہے تمام سگنل پر24گھنٹے کمسن بچوں کو لے کر خواتین نے بھیک مانگنے کو معمول بنا لیا ہے۔کسی بھی بھکاری سے سوال کرتے ہیں تو جواب آتا ہے میاں نشہ کرتاہے؟بچیاں بچے بھوکے ہیں؟ بچیوں کی شادی کرنی ہے؟یتیم بچوں کے لئے دودھ لینا ہے یہ تھی ساری سٹوری جو میں نے تحریرکر دی۔ اب میں تھوڑا سا اس میں اضافہ کر کے اپنا تجربہ بتاتا ہوں اور پھر اصل موضوع کی طرف آئیں گے۔
28سال سے کریم بلاک اور اب کامران بلاک سے جیل روڈ کی طرف آ رہے ہیں جو میں نے کریم بلاک بھیکے والا موڑ پر بچے بچیاں بھیک مانگتے دیکھے اب ان کے بچے بچیاں اپنی والدہ اور ماؤں کے ساتھ بھیک مانگتے دیکھ رہا ہوں، ٹریفک پولیس کی طرف سے ان کے بھاگنے کا عمل اور پولیس، ویلفیئر اداروں کی طرف سے پکڑ دھکڑ، ان کو تھانوں اور اداروں کی قید میں پابندِ سلال رکھنا مجھے جو آج تک سمجھ آیا ہے فقط ڈرامہ بازی اور ڈنگ ٹپاؤ ہے،بلکہ اسی طرح جس طرح روزانہ ہزاروں ٹن دو نمبر دودھ اور ہزاروں ٹن مردہ مرغی کا گوشت فوڈ ڈیپارٹمنٹ ضائع کرتا ہے،جرمانے کرتاہے،مکروہ کاروبار کرنے والے جرمانہ دے کر دودھ،گوشت ضائع کر کے اپنی روش سے نہیں ہٹتے۔ یہی حال ان بھکاریوں کا ہے ان لوگوں نے پیشہ کے طور پر بھیک مانگنے کو پرو مشن بنا لیا ہے اِس لئے ان کے لئے پکڑ دھکڑ دو تین دن تھانے میں یا ویلفیئر اداروں کی حراست میں رہنا بڑی بات نہیں ہے ان کے لئے لانگ ٹرم پالیسی آج تک کیوں نہیں بنائی گی۔بلدیاتی ادارے پولیس ویلفیئر کے ادارے کیوں ناکام ہیں اس پر حکومت کو سوچنا چاہئے،مگر جو باتیں میں عرض کرنے لگا ہوں بھیک مانگنے کا عمل آپ لاہور یا پاکستان کے دیگر شہروں پر قبضے اور علاقوں کی تقسیم کے نیٹ ورک تک محدود نہیں رہا،بلکہ حج2024ء میں پکڑے جانے والے ہزاروں مرد و خواتین نے مکہ مدینہ، منیٰ، عرفات میں بھیک مانگ کر جو نام پاکستان کا روشن کیا اس سے جتنی بدنامی ہوئی اور سعودی حکومت نے حج2024ء کے بعد پابندیاں لگائی ہیں ایئر لائنز جدہ مدینہ جانے والی فلائٹس سے مرد خواتین کو آف لو کرنے کا سلسلہ جاری ہے یہ معمولی بات نہیں ہے یا گرین پاسپورٹ کی نیک نامی نہیں ہو رہی۔ سوال اُٹھتا ہے ایئرپورٹ پر ایئر لائن والے، سول ایوی ایشن اور امیگریشن والے ایسے افراد کو پکڑتے کیسے ہیں کیا سو فیصد بھکاری پکڑے جاتے ہیں،ہرگز نہیں اِس میں کئی حقیقی عمرہ پر جانے والے غریب بھی پکڑے جاتے ہیں زیادہ تر حقیقی بھکاری ہی پکڑے جا رہے ہیں ایوی ایشن امیگریشن کے لوگ یقینا چہرہ شناس ہوتے ہیں، عمرہ پر جانے والے کچھ نہ کچھ تیاری کر کے جاتے ہیں،دعائیں سیکھ کر جاتے ہیں،بھیک مانگنے والوں کو کچھ بتایا نہیں جاتا بس احرام پہنا کر ٹکٹ ویزہ تھما دیا جاتا ہے کسی سوال کا جواب نہیں دے پاتے۔ اِس سال کے گیارہ ماہ میں درجنوں نہیں سینکڑوں افراد ملتان، لاہور،کراچی، پشاور،اسلام آباد، سیالکوٹ، فیصل آباد ایئر پورٹ سے آف لوڈ ہو چکے ہیں کیا ہم نے کوئی سبق حاصل کیا ہر گز نہیں۔
دبئی کی مساجد، چوکوں اور محلوں میں بھیک مانگتے ہیں۔ کام یہی نہیں رُکا ہمارا دوست ملک ترکی بھی تنگ آ گیا ہے، ترکش ایئر لائن کی ٹکٹ لینے والوں کو ٹرانزٹ ویزہ دے رہا تھا اس نے بند کر دیا ہے۔10ہزار کا ترکی ویزہ ملتا تھا ہمارے بھکاریوں اور ڈنکی ہونے والوں کی مہربانی سے ٹرانزٹ ویزہ ہی ختم نہیں ہوا، بلکہ 55ہزار ویزے کی قیمت ہو گئی ہے اس کے لئے کاغذات کی جانچ پڑتال بھی سخت کر دی گئی ہے،انسانی سمگلنگ کا مکرہ دھندہ۔لاہور سے استنبول اور پھر ڈنکی ہو کر اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں جانے والوں کا نیٹ ورک پکڑے جانے کے باوجود آج بھی مکروہ دھندہ عروج پر ہے۔ حکومتی اقدامات، ایف آئی اے کا ایکشن اخبارات کی خبروں تک محدود ہے۔
ڈنکی ہونے والوں،بھیک کو کاروبار بنانے والوں سمیت کس کس کا نام لیا جائے جنہوں نے پاکستان کے سبز پاسپورٹ کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ سعودی عرب، دبئی، ترکی تک ہمارا جانا مشکوک نہیں ہوا،یورپ،امریکہ، لندن تو ہمارے وزیراعظم، وزراء پر بھی اعتبارکرنے کے لئے تیار نہیں۔آپ مجھ سے سوال کر سکتے ہیں؟میں یہ کام کیوں لکھ رہا ہوں ا ن کے لئے جواب ہے قلم کی حرمت قائم رکھنے اور بطور صحافتی طالب علم فرض ادا کرنے کے لئے تحریر کر رہا ہوں ورنہ77 سال میں کچھ نہیں بدلا شاید اب بھی نہ بدلے، میں نے حق ادا کر دیا ہے ادارے جانے اور دو نمبری کے ذریعے باہر جانے والے! اگر آج تک نہیں پکڑے جا رہے تو ایک دن ضرور پکڑے جائیں گے جب اللہ کا دربار ہو گا اور ہم ہوں گے کوئی سفارش نہیں چلے گی۔ اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔
٭٭٭٭٭