نئے صوبائی صدر کا استقبال کئی سوال چھوڑ گیا

پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے پنجاب فتح کرنے کی آس پر میاں منظور وٹو کے ہاتھ میں صوبہ کے جیالوں کی کمان تو دے دی گئی ہے مگر پیر کے روز اگرمیاں منظور وٹو کی لاہور میں پہلی انٹری پر نظر ڈالی جائے تو یہ کچھ زیادہ متاثر کن نہیں ہے اور نہ ہی اس میں جیالوں کا جیالا پن نظر آیا۔ پنجابی میں کہتے ہیں ”جمدیاں سولاں دے منہ تھکے ہوندے نہیں“ اردو میں کہتے ہیں پہلا تاثر ہی آخری تاثر ہوتا ہے لیکن انگریزی میں First Impression is the Last Impression کہا جاتا ہے اگر اسے درست تسلیم کرلیا جائے تو گزشتہ روز کا شو کامیاب نہیں کہاجاسکتا اور اگرمیاں منظور وٹو کی گزشتہ روز کی پنجاب کے دل کہلانے والے شہر لاہور میں بطور صدر پنجاب انٹری پر نظر ڈالی جائے تو ان کی آمد پر جیالوں کے نعرے آیا آیا کون آیاشیروں کا شکاری آیاپر منظور وٹو کی آمد پوری نہیں اترتی شیروں کے شکاری شکاریوں کا لباس اور سازو سامان زیب تن کرکے آتے ہیں مگر پنجاب کے جیالوں کے ”امام“ بن کر آنے والے منظور وٹو ایئر پورٹ سے باہر ایک دولہا کے گیٹ اپ میں شیروانی نما لباس اور سر پر دولہا کا ”کلا“ پہنے آئے۔ ان کی آمد پر ایئر پورٹ پرجیالوں نے ممنوعہ علاقے میں داخل ہوکر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے کرنے کی کوشش کی اور ہنگامہ آرائی کی فضا پیدا کرکے اگرچہ استقبالی جیالوں نے جیالا پن پیدا کرنے کی کوشش کی مگر اس میں وہ ناکام رہے اس میں بھی پنجاب پولیس ان سے ہاتھ کر گئی وفاق کے جیالوں کو وفاق کے ادارے اے ایس ایف سے لڑا دیا اور خودکو بچالیا شاید جیالے ایسا کرکے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف ایک ایشو بنانا چاہتے تھے جو اس میں ناکام رہے بعدازاں پنجاب کے جیالوں کے نئے کمانڈر جب لاہور شہر کے لئے گاڑی میں بیٹھے توکیا تھا کمانڈر نے اپنے زخمی جیالوں کا ہال چال تک نہ پوچھا جس پر جیالوں کی بڑی تعداد نالاں ہوکر ایئرپورٹ سے ریلی کا حصہ بننے کی بجائے اپنی ”راہ“ لے گئے اگر غیر جانبدارانہ طریقے سے شیروں کے شکار کا ٹاسک اور پنجاب کا آئندہ انتخابات کے بعد ”لاڑا“ بننے کی جستجو لئے میاں منظور کی لاہور آمد اور ان کے استقبال کا تجزیہ کیاجائے تو یہ پارٹی کے سابق صوبائی صدور امتیاز صفدر وڑائچ ، راجہ ریاض اور رانا ریاض کی لاہور آمد سے کسی طرح بہتر نہ تھا، ایک اور اہم بات یہ کہ گزشتہ دنوں شاہدرہ میں پیپلزپارٹی کے اصلی اور پکے سچے جیالے سید آصف ہاشمی کی طرف سے شاہدرہ میں کئے گئے جلسے کا موازانہ کیاجائے تو میاں منظور وٹو کے استقبالی جلسہ کو ”جلسی“ کہنا پڑے گا۔ وہ جلسہ صرف ایک حلقہ کا تھا جس میں ہزاروں جیالے موجود تھے۔ یوں لگتا ہے کہ جیالوں نے منظور وٹو کو دل سے اپنا صوبائی صدر تسلیم نہیں کیا۔ ان کے استقبال کے لئے آنے والے جیالوں کی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی پجاور لینڈ کروزر سوار اشرافیہ کی بھرمار ضرور تھی جن کی آمد بتا رہی تھی کہ میاں منظور وٹو کو انٹرنل اور ایکسٹرنل مسائل کا سامنا ایک ہی وقت میں کرنا پڑے گا۔ منظور وٹو کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ایک ہی وقت میں انہیں جیالوں کو بھی رام کرنا ہے حکومت کی سب سے بڑی اتحادی مسلم لیگ (ق) کا بھی اعتماد حاصل کرنا ہے اور اصل ہدف شیروں کا شکار بھی کرکے خود کو شیروں کا شکاری ثابت کرنا ہے، مگر جیالوں نے پیر کے روز جس طرح کا ”ٹھنڈا“ ٹھار اور بے رونق استقبال کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ شیروں کا شکار کرنے آنے والے وٹو کے جیالے شکاری ضرور بنیں گے۔ گزشتہ روز ریلی کے استقبال نے کئی سوالیہ نشان چھوڑے ہیں۔