تبدیلی کی لہر
ملتان کی سیاسی تاریخ سے ایسے بہت کم واقعات وابستہ ہیں، جنہوں نے قومی سیاست کے خدوخال کو تبدیل کیا۔اگر ان واقعات کی فہرست مرتب کی جائے تو ملتان کے حالیہ انتخاب کی جگہ اس میں نمایاں ہو گی۔ یہ ضمنی انتخاب تاریخی اس اعتبار سے تھاکہ مخدوم جاوید ہاشمی کی سیاست کا ایک طویل باب اختتام پذیر ہوا۔ عروج کو زوال طے ہے اورکہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف میں بحیثیت صدر گزرا ہوا زمانہ جاوید ہاشمی کا نقطہ ءعروج تھا۔ مشہور ہے کہ چراغ بجنے سے قبل خوب ٹمٹماتا ہے۔ ہاشمی صاحب کے ساتھ بھی شاید یہی ہوا۔الیکشن سے قبل ان کا اضطراب عیاں تھا۔مقامی بیوروکریسی اور پنجاب حکومت نے بھی کھل کر ان کی حمایت کی، لیکن نتیجہ توقعات کے برعکس رہا۔ تحریک انصاف نے ہاشمی صاحب کی سیاست پر جو چوٹ لگائی ہے اس کا درست اندازہ صرف انہیں ہی ہو گا ‘ یا ایک دوسری سیاسی جماعت کو۔
ملتان کے حلقہ149کی جنگ دو امیدواروں کے بجائے دو سیاسی جماعتوںکے مابین لڑی گئی ۔ تحریک کے حمایت یافتہ امیدوار نے میدان مار کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اندرون پنجاب ایک نئی سیاسی جماعت کے طور پر مضبوط ہو رہی ہے۔ اس سے یہ استدلال کمزور ہو ا کہ دھرنا سیاست کے باعث تحریک انصاف کی ساکھ کو گزند پہنچا، ساتھ ہی اپنی جماعت کے سابق صدر کو ہرا کروہ اپنی مقبولیت کی دھاک بٹھانے میں بھی کامیاب رہی ۔ دھرنوں کی ناکامی کے بعد تحریک انصاف کے کامیاب جلسوں پر مخالفین یہ توجیع پیش کرتے رہے ہیں کہ کامیاب جلسے انتخابات میں کامیابی کی ضمانت نہیں،لیکن اب تحریک انصاف ملتان میں ایک بڑے جلسے کے بعد انتخابی میدان میں بھی کامیاب ہوئی ہے۔”باغی“ کی شکست تحریک انصاف کے لئے ایک بڑی کامیابی ہے، مگر اس کی سب سے زیادہ خوشی”سپوتِ ملتان“ کو ہوئی ہوگی۔ موصوف نے اس کے لئے خوب محنت کی تھی۔ عامر ڈوگر کی فتح پر وہ اب خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔
بدقسمتی سے جنوبی ایشیا کی سیاست میں بعض منفی رویے باقاعدہ رواج پا گئے ہیں۔ ہمارے ہاں جماعتی پالیسی کی خلاف ورزی یا اپنی پارٹی قیادت کے خلاف بولنا ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہ کلچر جمہوری اصولوں کے مطابق نہیں۔ کوئی سیاستدان ایسی غلطی کے ارتکاب کا سوچ بھی نہیں سکتا، مگر جاوید ہاشمی نے اس کلچر سے بغاوت کی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ اقدام عوام میں خاصا مقبول ہوگا اور ضمنی انتخاب میں قومی اسمبلی کی سیٹ پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آگرے گی، لیکن انسان کا ہر فیصلہ درست نہیں ہوتا۔ جذبات میں کیا ہوا فیصلہ تو بالکل بھی نہیں۔ مخالف امیدوار کی برتری معمولی ہوتی تو معاملہ الگ تھا، لیکن چودہ ہزار ووٹوں سے شکست بڑی ناکامی ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے درست کہا کہ جاوید ہاشمی عجلت میں فیصلہ کرنے کے عادی ہیں اور اپنے فیصلے پر ڈٹ جانے کے بھی۔ استعفیٰ کے بعد دوبارہ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کسی طور مناسب نہ تھا۔بہت بہتر ہوتا اگر وہ اس موقعہ پر سیاست کو خیرباد کہہ دیتے اور طے شدہ منصوبے کے تحت علاج کے لئے بیرون ملک سدھارتے، لیکن جاوید ہاشمی کی خود اعتماد ی نے انہیں الیکشن میں حصہ لینے پر مجبور کیا۔ حالات کو بھانپ کر قدم اٹھانا اچھے سیاستدان کی علامت ہے ۔ ہاشمی صاحب ،مگر ایک کمزور سیاستدان ثابت ہوئے۔ حد سے زیادہ خود اعتمادی کے شکار شخص سے ایسی غلطیاں سرزد ہو جانا عجیب بات نہیں۔ استعفیٰ دے کر دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے کی غلطی ان کی سیاست کی بہت بڑی غلطی تھی ۔
ملتان کی سیاست کئی حوالوں سے منفرد ہے۔ یہاں امیدوار سے زیادہ سیاسی جماعت کو ووٹ دینے کا رجحان ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے یہ حلقہ قومی سیاست میں اپنے بلند قد کاٹھ کی وجہ سے جیتا، محترمہ شہید کا معاملہ بھی تقریباً یہی تھا۔یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوتے رہے۔ وزیراعظم منتخب ہونے اور اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کے باوجود اگلے الیکشن میں وہ ہار گئے۔ اس کی وجہ پیپلز پارٹی کی بد ترین کارکردگی تھی۔متعدد بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے جاوید ہاشمی اگر اس مرتبہ شکست کھا گئے تو اس کی ایک وجہ مسلم لیگ ن کی حمایت تھی، جس کی کارکردگی سے عام آدمی مطمئن نہیں، ورنہ اندرون ملتان جاوید ہاشمی کی ساکھ ملک عامرڈوگر سے کہیں زیادہ بہتر تھی۔ جاوید ہاشمی کی شکست درحقیقت ملتان کے عوام کا حکومتی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار ہے۔
ملتان کے ضمنی انتخاب کے نتائج موجودہ حکومت کے لئے ایک بڑا جھٹکا ہیں۔ اس کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت مخالف تحریک میں بھی ایک نئی شدت پیدا ہو رہی ہے۔ اب مسلم لیگ ن کے پاس یہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کی کارکردگی عوامی امنگوں کے مطابق نہیں۔ دراصل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتے۔ آصف علی زرداری اسے پانی کا بلبلہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی یہ پالیسی درست نہیں۔اپنے دور حکومت میں جنرل مشرف نے عدلیہ کی حکومت مخالف تحریک کو کمزور تصور کیا تھا جو بعد میں ان کے لئے وبال جان ثابت ہوئی۔ سیاست میں کسی قوت کو اس کی قوت سے کم تر تصور کرنے کی غلطی مہنگی ثابت ہو سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے حوالے سے یہ نکتہ اہم ہے۔ پیپلز پارٹی اب بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک نئی زندگی پانے جارہی ہے۔ زمینی حقائق سے انکار کر کے وہ اپنے قدم مضبوط نہیں بنا سکتی۔اب ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ پاکستان میں سہ جماعتی نظام تشکیل پا چکا ہے۔ تحریک انصاف نے مختصر دورانیے میں خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ پنجاب کے کچھ حصوں میں تحریک پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط ہو رہی ہے۔جاوید ہاشمی کے شکست کے بعد اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ تحریک پنجاب بھر میں اپ سیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔لہٰذا دیگر سیاسی جماعتوں کو اسے حقیقت مان لینا چاہیے ۔