احمد مجھے پیسے دو۔۔۔ ورنہ؟

   احمد مجھے پیسے دو۔۔۔ ورنہ؟
   احمد مجھے پیسے دو۔۔۔ ورنہ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کالم کا عنوان پڑھ کر خدا نخواستہ یہ مت سمجھیں کہ میں کسی سے پیسے مانگ رہا ہوں ایسا نہیں ہے۔یہ ایک عجیب و غریب پیغام ہے جو مجھے ایک نامعلوم شخص نے بھیجا اور اس پیغام میں اس نے مجھ پر واضح کیا کہ اگر میں نے اسے پیسے نہیں دیئے تو وہ کیا کرے گا؟ یہ پہلا پیغام مجھے15ستمبر کو دوپہر تین بجے میرے موبائل پر میسج کی شکل میں آیا اور اس کے دو گھنٹے بعد دوبارہ ایسا ہی ایک اور پیغام آیا۔ حسب ِ عادت میں نے انہیں دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی جس کے بعد اس نے مجھے رات ساڑھے گیارہ بجے پہلا فون کیا، جس میں اس نے مجھے کہا کہ مجھے پیسے چاہیئیں، میں نے کہا کیوں۔میں تو آپ کو نہیں جانتا، اس نے کہا میں نے اپ کو میسج بھیجا ہے جس میں آپ کو بتایا ہے کہ مجھے پیسے کیوں چاہئیں۔ مجھے پیسے دیں میں نے اس کو جواب نہیں دیا اور کال کاٹ دی،جس کے بعد دوسرا فون 18ستمبر کی صبح آیا اور وہ فون میرے بیٹے سید عظیم الدین نے سنا اس کو بھی حیرانی ہوئی کہ کوئی شخص کیسے بغیر کسی تعلق، واسطے، تعارف پیسوں کا مطالبہ کر سکتا ہے۔  میں نے تو خیر اسے کچھ نہیں کہا تھا میرے بیٹے نے اسے ڈانٹ ڈپٹ کر فون بند کر دیا اور اس کا نمبر بلاک کر دیا (مجھے نمبر بلاک کرنا بھی نہیں آتا)۔یہ سب سنانے کا مقصد آپ اس وقت سمجھیں گے جب اس کے پیغامات (میسیج)آپ کو بتاؤں گا تو اپ کو سمجھ آئے گی کہ یہ ”ورنہ“کا مطلب کیا ہے، لیکن سچ یہ بھی ہے آج  مجھے ”قیدی نمبر“ 804 یعنی عمران خان یاد آ رہے ہیں کہ اگر آج ان کا ہیلتھ کارڈ ہوتا تو شاید اس شخص کو مجھ سے  رابطہ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی، لیکن ایک دوسری سوچ بھی ہے کہ یہ شخص غلط بیانی کر رہا ہے جو یہ مسئلہ بتا رہا ہے وہ نہیں ہے۔ صحت کارڈ ہوتا تو پھر بھی مجھے یہ کال ضرور آنی تھی،مجھے اس طرح کی یہ پہلی کال نہیں ہے۔

آپ کو بھی یاد ہو گا کہ آج سے 25سال پہلے میسج آیا کرتے تھے کہ میرا نام روزی، شبانہ، نجمہ، مریم (اور کچھ  بھی ہو) مجھے آپ بیلنس کروا دیں۔یہ بڑی”معصوم سی خواہشیں“ ہوتی تھیں جو لوگ زنانہ نام اختیار کر کے بھیجا کرتے تھے اور مجھ جیسے ”کچھ بیوقوف“وہ بیلنس کروا بھی دیتے تھے۔ بہرحال یہ مسئلہ وقت بدلنے کے ساتھ بڑا ہوتا گیا اور پھر آج سے کوئی تین سال پہلے مجھے ایک کال آئی کہ میرا تعلق پولیس سے ہے،فیصل آباد سے بات کر رہا ہوں ہم نے چار نوجوان پکڑے ہیں، جن میں ایک آپ کا بھانجا بھی ہے، مجھے بڑی اچھی طرح پتہ تھا کہ میرا بھانجا اس وقت یونیورسٹی میں ہے۔بہرحال پھر بھی میں نے اس سے ”اتمام حجت“کے لیے پوچھا ”کہاں ہے میرا بھانجا بات کرا“۔ اس دوران میں نے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے اپنا اور پھر اپنے بھانجے احمد سعید کا نام بھی بتا دیا اور پھر جب بھانجے صاحب لائن پہ آئے اور ”رو رو کر التجاء“کی ماموں مجھے بچا لیں، ماموں مجھے بچا لیں۔ تو میں نے غصے میں جو کہا اس کو میں یہاں بیان نہیں کر سکتا۔ جواب میں اس نے گھبرا کے فون دوبارہ اس ”پولیسیے“کو پکڑا دیا۔وہ اصلی تھا یا  ”جعلی پلسیا“تھا پتہ نہیں اس لیے کہ اس نے پکڑے جانے پر مجھے گالیاں دیں اور کال کاٹ کر بھاگ گیا۔ اگلی دفعہ یہ فون مجھے میرے بیٹے سید عظیم الدین کے حوالے سے آیا کہ آپ کا بیٹا ہم نے پکڑا ہے اتنے پیسے لے کر آجائیں تو مجھ سے برداشت نہیں ہوئی میں نے کہا الو کے پٹھے میرا بیٹا تو میرے سامنے بیٹھا ہے۔مجھے بعد میں پولیس افسران سے پتہ چلا کہ بہت سے بیچارے سادہ لوح لوگ ایسے لوگوں کو پیسے دے بھی دیتے ہیں۔اب یہ صاحب جنہوں نے مجھے ”ڈرا کر مدد مانگی“ ہے ان کا یہ کہنا ہے کہ میری بیوی کی حالت بہت خراب ہے وہ مر جائے گی میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ میرا اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ میرے پاس کوئی چیز نہیں جو بیچ کر علاج کراؤں۔ خدا کے لئے اپنے بچوں کا صدقہ سمجھ کر مدد کر دیں، اگر میری بیوی علاج نہ ہونے سے مر گئی تو اللہ کی بارگاہ میں ”سجدے میں جا کر رو رو کر“ آپ کی ”شکایت“کروں گا کہ میں نے ”آپ کو مدد کے لئے پکارا“اور آپ نے میری مدد نہیں کی۔ میں آپ کو مدد کے لئے پکارتا رہا۔ اس کے بعد دوسرا پیغام دو گھنٹے بعد آیا۔اس میں کچھ اضافہ ہو گیا کہ میں نے گھر گروی رکھ کر چھ لاکھ قرضہ لے لیا ہے۔ باقی سات لاکھ 30ہزار کی ضرورت ہے)یعنی ان دو گھنٹوں میں اس کو چھ لاکھ قرضہ بھی مل گیا)اس نے مزید لکھا کہ اس کے پاس بیچنے کے لئے کوئی اور چیز نہیں لہٰذا میری مدد کریں، اگر میری بیوی مر گئی تو اللہ کی بارگاہ میں جا کر سجدے میں گر کر رو رو کر آپ کی شکایت کروں گا کہ ٓاپ نے میری مدد نہیں کی۔

اب غالبا آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا بتانا چاہ رہا ہوں، یعنی کہ مجھے کس سے ڈرایا جا رہا ہے کہ اگر رقم نہ دی تو سجدے میں جا کراللہ تعالیٰ سے رو رو کر شکایت کروں گا۔  بھائی جب کہہ رہے ہو کہ تمہارا اللہ کے سوا کوئی نہیں تو اللہ سے کیوں نہیں مانگتے مجھے سے کیوں مانگتے اور اللہ سے ڈراتے ہو۔ میں تو خود پانچ سال سے بے روزگار ہوں۔ میں تمہیں سات لاکھ 30 ہزار روپے کہاں سے دوں۔ میرا ان”حضرت“سے یہ کہنا ہے کہ پہلے کم از کم ”ریکی“تو کر لیا کرو کہ جس کو تم میسج بھیج رہے ہو اس کے پاس اتنے پیسے ہیں۔میرا لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ جو بھیک مانگنے کا سلسلہ اب اس طرح شروع ہو گیا ہے اس سے محتاط رہیں جو شخص آپ کے سامنے کشکول لے کے کھڑا ہوتا ہے اس کی شکل تو اپ کو نظر آرہی ہوتی ہے، لیکن یہ شخص جس نے نجانے کہاں سے میرا نمبر حاصل کیا اور لاکھوں روپوں کی درخواست ڈال دی کہ مجھے یہ رقم چاہئے۔ میرا دِل بہت کر رہا ہے کہ میں یہ نمبر ایف ائی اے سائبر کرائمز سرکل میں اپنے کسی دوست کے حوالے کروں تاکہ کم از کم پتہ تو چلے کہ یہ کون ہے، لیکن پھر میرا دل نہیں مانتا کہ اگر یہ شخص واقعی کسی مصیبت میں ہوا تو پھر میرے پاس کیا جواب ہو گا،لیکن اصل قصوروار تو ہماری حکومتیں ہیں، جنہوں نے ہمیں اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ آج 50فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے اور لوگ زندہ رہنے کے لئے ہاتھ پھیلانے پرمجبور ہو چکے ہیں۔ اگر انہیں ”کچھ“ نہ ملا تو یہ ڈاکے ماریں گے،چوریاں کریں گے یا؟ اس شخص کو دراصل میاں نواز شریف، صدر آصف علی زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمن،ایمل ولی خان، ڈاکٹر مقبول صدیقی اور دیگر رہنماں کے نام میسج بھیجنا چاہئے کہ اگر مجھے پیسے نہیں بھیجے تو میں سجدے میں جا کر اللہ میاں سے  تمہاری شکایت کروں گا۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -