اب وسیع تر بات چیت کے بغیر گذارہ نہیں؟

  اب وسیع تر بات چیت کے بغیر گذارہ نہیں؟
  اب وسیع تر بات چیت کے بغیر گذارہ نہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چولستان کی ترقی کے حوالے سے نئی نہروں کے خلاف سندھ میں جو کچھ ہو رہا ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی جس اعصابی دباؤ کا شکار ہے اس کا ذکر میں اپنے ایک گذشتہ کالم میں کر چکا ہوں،اس وقت میرا تجزیہ تھا کہ اس دباؤ کو کم کرنے کے لئے پیپلزپارٹی نے جو سخت موقف اختیار کیا اس میں کمی کی بجائے زیادہ شدت ہو جائے گی اور ایسا ہی ہو رہا ہے بلکہ اب نوبت مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان میڈیا جنگ کی آ چکی اور بات پارلیمنٹ کے ایوانوں تک چلی گئی ہے،مسلم لیگ(ن) کی اتحادی حکومت نے بوجوہ اس مسئلہ کو آسان لیا جس کی وجوہات سے اب پورا ملک واقف ہو چکا،اس سلسلے میں وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے تو بہت ہی ہلکے انداز سے کہہ دیا کہ یہ تناؤ  نہیں رہے گا اور دونوں جماعتیں اسی تنخواہ پر کام کریں گی، جبکہ وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ مسلسل شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتے چلے آ ر ہے ہیں اور انہوں نے سندھ حکومت کے علاوہ قوم پرستوں سے بھی بات کی ہے اور بتایا ہے کہ وزیراعظم مل بیٹھ کر مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ان کو جو جواب ملا وہ انکار والا نہیں تو اس میں اقرار بھی نہیں۔بہرحال ایک بڑے سیانے کی بات  درست ہے کہ نہروں کا مسئلہ چاروں صوبوں اور سب جماعتوں کی مشاورت سے حل ہونا چاہئے تھا اس سلسلے میں، میں نے سندھ کی معروضی صورتحال کا ذکر رتے ہوئے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی نے مجبور ہو کر اندرونی دباؤ کو کم کرنے کے لئے یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔تاہم تاخیر اچھے نتائج کی حامل نہیں ہوتی اور نہ معلوم وفاقی حکومت (وزیراعظم) کی یہ عادت کب تبدیل ہو گی، جو ہر مسئلہ کو لٹکاتی اور حل میں تاخیر کرتی ہے۔ اگر رانا ثناء اللہ کی بات درست ہے تو پھر بلاوجہ تاخیر سے سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف جماعتوں اور عناصر کا دباؤ بڑھانے میں معاونت کی گئی، شاید یہ خیال ہو کہ یہ نہری منصوبہ گرین انیشیٹو منصوبے کا حصہ ہے اس لئے منصوبے کے خالق خود ہی مسئلہ درست کر لیں گے، لیکن یہ دیر سندھ کی صورتحال کو مزید خراب کرنے کا سبب بن گئی اور اب نوبت یہاں تک آ گئی کہ سندھ میں ہرتنظیم  اور طرزِ فکر والے اس میں شامل ہو گئے ہیں، حتیٰ کہ وکلاء کے ایک مختصر دھرنے کے بعد اب کراچی بار کے وکلاء بھی باہر نکل آئے اور انہوں نے آج ضلع سے ہائیکورٹ تک عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کر دیا اور مقدمات کی کارروائی نہیں ہونے دی۔

دوسری طرف سندھ حکومت کے وزیر اطلاعات سینئر وزیر  کے بعض بیانات کے حوالے سے پنجاب کی سمارٹ وزیر اطلاعات نے بھی تاک تاک کر نشانے لگانے شروع کر دیئے اور یوں بات مزید بڑھ گئی اور بدھ کے روز اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے ”عقابوں“ نے مشترکہ پریس کانفرنس کر کے براہِ راست صوبائی حکومت کو نشانے پر لے لیا۔چودھری منظور پرانے جیالے اور ”عقابوں“ میں شمار ہوتے ہیں جبکہ افضل چن نئے انتخابات میں سیکرٹری اطلاعات بن چکے ہیں۔میرا خیال تھا اور ہونا بھی ایسا چاہئے تھا کہ یہ حضرات بھی سندھ حکومت کی طرح سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے اور جوابی الزامات سے گریز کرتے،لیکن یہ ممکن نہ ہوا کہ عمر کے لحاظ سے ان ٹھنڈے حضرات نے بھی گرم جوشی کا مظاہرہ کر دیا۔

ندیم افضل چن نے تو نیا پنڈورا بکس کھول دیا اور اب یہ اور بھی مشکل ہو گیا کہ جواب الجواب ہو،حالانکہ رانا ثناء اللہ یہ کہہ چکے کہ بلاول کی حیدر آباد والے جلسہ میں کی جانے والی تقریر کے نکات کا جواب دینے کی ضرورت نہیں کہ یہ خطابت کے جوش میں کہی گئی باتیں ہیں،لیکن اب عظمیٰ کو کون روکے گا؟ جن کے فرائض میں تنقید کا جواب دینا بھی شامل ہے،چنانچہ جواب بھی ہو گیا ہے اب اگر حالات کو مزید خراب ہونے سے روکنا مقصود ہے تو پہلے دونوں جماعتوں کو رضاکارانہ طور پر زبان بندی اختیار کرنا ہو گی یا پھر منصوبہ سازوں پر تکیہ ہے تو ان کو ہی یہ مسئلہ حل کرنے دیں ورنہ مشترکہ اجلاس اور مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بُلا لیں حرج کیا ہے یہ فورم تو بنایا ہی ایسے ایشوز حل کرنے کے لئے گیا تھا،میں  یہ سمجھتا ہوں کہ غلط فہمیوں کے تصور سے جلد جان چھڑا لینا بہتر ہے اگر اب پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کو کسی دباؤ کے تحت احتجاج سے روکنا مقصود ہو گا تو اس میں کامیابی نہیں ہو گی، کہ سندھ میں اب دباؤ اتنا بڑھ چکا کہ کوئی فرد نہروں کے حوالے سے دلیل سننے کو تیار نہیں اور یہ صورت حال تعصب میں بھی اضافہ کر رہی ہے جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے حوالے ہی سے ہوا ہے ورنہ باقی جماعتیں خصوصاً قوم پرست تو سندھو دیش والوں کی باقیات ہیں اِس لئے اس تنازعہ کو فوراً سنبھالنے کی ضرورت ہے اور پہلا عمل بیان بازی روکنا ہے، قیادت کو یہ فرض ادا کرنا ہو گا اِس سلسلے میں سنجیدہ فکر حلقے میاں محمد نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری سے کردار ادا کرنے کے منتظر ہیں۔

ارادہ تو اپنے مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے لکھنے کا تھا لیکن تازہ تر حالات نے بھڑکتے مسئلہ پر توجہ دینے پر مجبور کر دیا۔ مولانا فضل الرحمن تین چار روز لاہور میں رہنے کے بعد چونکا دینے والے فیصلے کر کے واپس گئے ہیں۔ انہوں نے بھی جو اعلان کئے وہ بظاہر جلتے  ہوئے فلسطین کے حوالے سے زیادہ اہم ہیں تاہم اس سلسلے میں جماعت اسلامی سے اتحاد کر کے اتحاد ملت کا پلیٹ فارم بنا کر متحرک ہونے کا فیصلہ بہت دور رس نتائج کا حامل ہے اور اس کے تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا، ایسا احساس ہوتا ہے کہ مولانا نے نئی ایم ایم اے بنانے کی طرف قدم بڑھا دیا اور تحریک انصاف سے دوری کا اشارہ دے کر ان کو پھر سے اُمید کی ڈوری سے باندھ بھی دیا ہے کہ اصلی اور حتمی فیصلہ جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کرے گی۔مجھے یہ زعم ہے کہ میں مولانا کو بہتر جانتا ہوں اس لئے ان کے ذہن کے گوشے میں جھانکنے کی جسارت کر سکتا ہوں مولانا کا عمل اور ہدف اب الگ الگ ہیں اور ان کا عمل یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ اب ہدف کے قریب ہیں اور جلد ہی ان کو براہ راست مکالمے کا موقع مل جائے گا کہ اب حالات کا بھی تقاضہ ہے۔ ملک میں استحکام نہیں بن رہا اس میں مولانا اور ان کی جماعت اہمیت کی حامل ہے اور اب تو انہوں نے ایک مشترکہ موقف کے تحت عملی قدم بڑھایا اور اتحاد امت کے حوالے سے فلسطینیوں کی حمایت اور تعاون کی جدوجہد کا اعلان کر دیا ہے۔اس سے کسی غلط فہمی کے بغیر متعلقہ حلقوں پر دباؤ بڑھانے میں مدد ملے گی۔ جمعیت علماء اسلام(ف) اور جماعت اسلامی کا اتحاد یوں  بھی ایک بہتر ”مِلی ٹینٹ فورس“ بنا دے گا اور فلسطین کی آزادی اور غزہ کے مظلومین کی حمایت کے حوالے سے وہ کھلی تنقید بھی کر سکیں گے۔ یوں مولانا ایک ہی تیر سے کئی شکار کریں گے۔ذرا غور فرمائیں ان کی حیثیت یہ ہو چکی کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ان پر تنقید نہیں کر پا رہی کہ مولانا کو ناراض کرنے میں بھلائی نہیں، وہ خود بھی پلٹ  کر بڑا وار کرتے ہیں تاہم میں تو مولانا کو اپنے دیرینہ تعلقات کے حوالے سے یہ عرض کروں گا ”مولانا محترم! زیادہ گھروں کا مہمان بھوکا رہ جاتا ہے، اس لئے اب گو مگو چھوڑیں اور سیدھی سیاست کریں،میں نہیں جانتا کہ مولانا کا ہدف کیوں پورا نہیں ہو پا رہا، شاید کوئی گولی اٹکی ہوئی ہے“۔ میں استدعا کروں گا کہ تمام طبقات معہ مقتدر حلقوں کے حالات کا شعور پیدا کریں اور وسیع تر ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں اور سب کے لئے بہتر ہے، ان سب کا بھلا اور ملک کی بہتری ہو گی۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -