آبی خود کشی

گزشتہ روز یومِ مادرِ ارض منایا گیا اور میں تب سے سوچ رہا ہوں کہ ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہ آنے والے زمانوں میں رہنے کے قابل رہے گی بھی یا نہیں؟ ترقی اور تعمیرات کے نام پر ہم نے ماحول کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ دنیا کے پھیپھڑے یعنی جنگلات اب جواب دینے لگے ہیں، اور ظاہر ہے کہ عالمی ماحول اگر تباہ ہو گیا تو روئے ارض پر انسانوں سمیت کسی بھی ذی روح کے زندہ رہنے کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔ آج کل فیس بک اور واٹس ایپ پر سینکڑوں نوری برسوں کے فاصلے پر واقع ستاروں اور سیاروں کے بارے میں معلومات اکثر سامنے آ جاتی ہے جن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اتنے نوری سال پر واقع سیارے میں زندگی ممکن ہو سکتی ہے یا نہیں۔ یہ معلومات پڑھ کر میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ کیا مستقبل میں کبھی ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ نسل انسانی کے لیے روئے ارض پر زندگی گزارنا ممکن نہ رہے اور اسے کسی دوسرے ستارے یا سیارے پر منتقل ہونا پڑے؟ یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ آلودگی کا ابھی سے یہ حال ہے کہ ہمارا لاہور شہر سال بھر میں زیادہ وقت دنیا کا آلودہ ترین شہر رہتا ہے۔ لاہوریوں کے باقی دن سموگ سے لڑنے میں گزر جاتے ہیں۔ ابھی دو روز پہلے یہ رپورٹ سامنے آئی کہ گزشتہ ایک سال میں دنیا کے گلیشئرز والے تمام 19 خطوں کو مسلسل تیسرے سال بڑے پیمانے پر گلیشئر پگھلنے سے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ گلیشئرز کو بچانا اب دنیا کی بقا کا معاملہ بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم ویدر، کلائمیٹ اینڈ واٹر ایجنسی (ڈبلیو ایم او) کے سربراہ سیلسٹی ساولو نے عالمی یوم گلیشئرز کے موقع پر بتایا کہ گزشتہ چھ میں سے پانچ برسوں میں بہت زیادہ تیزی سے گلیشئر اپنے حجم میں سکڑے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گلیشئرز کا تحفظ اب صرف ایک ماحولیاتی، اقتصادی اور سماجی ضرورت نہیں بلکہ یہ بقا کا معاملہ ہے۔
حالات کو اس نہج تک پہنچانے کے ذمہ دار ہم یعنی انسان خود ہے۔ انسان نے اپنی رہائش اور زراعت کے لیے اتنے جنگلات کاٹے کہ اب روئے ارض ایک چٹیل میدان بنتا نظر آتا ہے۔ انسان نے صنعتی ترقی کے نام پر اتنے کارخانے اور فیکٹریاں لگائیں اور ان کارخانوں اور فیکٹریوں سے اتنے مضر صحت مواد خارج ہوئے کہ انہوں نے زمین کے پورے ماحول کو ہی تباہ کر کے رکھ دیا۔ ایسی ایسی گیسیں پیدا ہوئیں جن سے زمین کی سطح کو سورج کے تابکاری اثرات سے بچانے والی تہہ کو شدید نقصان پہنچا۔ اوزون لیئر کو پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں وہ مضر صحت شعائیں اب زمین تک پہنچ رہی ہیں اور اس کے ماحول پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ شدید موسمیاتی تبدیلیاں، جن کی زد میں آنے والے دس بڑے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، انہی منفی اثرات کا شاخسانہ ہیں۔
اس وقت ہماری زمین کے کم و بیش 30 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں۔ کبھی یہ بہت زیادہ ہوا کرتے تھے، اب بے حد کم ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 1.8 کروڑ ایکڑ رقبے پر موجود جنگلات کاٹ لیے جاتے ہیں۔ ماہرین جنگلات و ماحول کا کہنا ہے کہ اگر جنگلات کے کٹنے کی رفتار یہی رہی تو دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات، جنہیں رین فاریسٹ (Rain Forests) کہا جاتا ہے، اگلے 100 برسوں میں مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔ جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ جنگلات کی کٹائی آب و ہوا کو بہت سے طریقوں سے متاثر کرتی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے جنگلات ہمارے سیارے کے پھیپھڑے ہیں۔ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتے ہیں اور آکسیجن اور پانی کے بخارات کو ہوا میں چھوڑتے ہیں۔ درخت سایہ فراہم کرتے ہیں جو مٹی کو نم رکھتے ہیں۔ درختوں کی عدم موجودگی سے ماحولیاتی درجہ حرارت، ٹھنڈی آب و ہوا میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے جس سے ماحولیات کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ یہاں مون سون کے موسم میں تقریباً ہر سال شدید بارشیں ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف ہمارے ڈیم بھر جاتے ہیں بلکہ اضافی پانی پہاڑی اور میدانی علاقوں میں شدید سیلابوں کا باعث بنتا ہے یہ سیلاب جانی کے ساتھ ساتھ بھاری مالی نقصان کا باعث بھی بنتے ہیں۔ لیکن موسم سرما میں جب بارشیں کم ہوتی ہیں یا نہیں ہوتیں تو نہ صرف ڈیم خالی ہو جاتے ہیں بلکہ اتنا پانی بھی نہیں بچتا کہ خریف کی فصلیں ہی اچھے طریقے سے بوئی جا سکیں۔ اس وقت بھی ہمارے ملک میں یہی صورت حال ہے اور صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر مسائل سر ابھار رہے ہیں۔ چلو مان لیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے عوامل کو بڑھانے میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن ملک میں ایک بڑے آبی ذخیرے کی ضرورت پوری نہ کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ ظاہر ہے کہ ہم، ہماری حکومتیں اور ہمارے حکمران ہیں۔ ہم لاکھوں ایکڑ فٹ پانی ہر سال سمندر میں بہا کر ضائع کر دیتے ہیں اور پھر جب بارشیں نہیں یا کم ہوتی ہیں اور پانی کی قلت ہو جاتی ہے تو آپس میں لڑتے ہیں، لیکن یہ سوچ کبھی پیدا نہیں ہوئی کہ اس لڑائی کو ختم کرنے کا طریقہ ایک بڑے آبی ذخیرے کی تعمیر پر اتفاق رائے کرنا ہے تاکہ ہر سال اربوں ڈالر کا ضائع ہونے والا پانی بچایا جا سکے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے جبکہ پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذرائع ہیں جن کی مدد سے محض 30 دن کا پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فِٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فِٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔ ہر سال ضائع ہونے والے پانی کی مالیت 21 ارب روپے بنتی ہے۔ ہم کتنا پانی ضائع کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اس سے منگلا ڈیم کو چار بار بھرا جا سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تو ہمارا ملک متاثر ہو ہی رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آبی خودکُشی میں ہم نے خود بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔