الیکشن کینیڈا،مارک کارنی مرکز نگاہ

کینیڈین شہری 28اپریل کو ووٹ کی طاقت سے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے جارہے ہیں، ملک کے طول و عرض میں سیاسی گہما گہمی، ملاقاتیں، رابطے،ڈور تو ڈور انتخابی مہم جاری ہے،کارنر میٹنگز بھی انتخابی مہم کا حصہ ہیں،تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات میں شریک جماعتوں کی قیادت دشنام اور الزام تراشی کر کے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کی بجائے اپنے اپنے منشو ر ووٹرز کے سامنے پیش کر کے بتا رہے ہیں کہ انہیں اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو وہ کس طرح درپیش چیلنجز کا مقابلہ کر کے ملک میں خوشحالی لائیں گے۔کینیڈا میں عام انتخابات ایک ایسے موقع پر منعقد ہو رہے ہیں جب کینیڈا بھی عالمی معاشی بحران سے متاثر ہے، امریکہ، چین، بھارت سے تعلقات میں کشیدگی ہے،اندرون ملک سستی اور معیاری رہائش گاہوں کی کمی ہے،ملکی معیشت کی ترقی کی رفتار سست ہے،سابق وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے انہی وجوہ کو بنیاد بنا کر استعفیٰ دیکر نئے الیکشن میں جانے فیصلہ کیا تھا،جسٹن ٹروڈو اہم نوعیت کے بڑے فیصلوں کیلئے اپنے مینڈیٹ کو مضبوط ارور مستحکم کرنا چاہتے تھے۔ جسٹن ٹروڈو کے پیش رو مارک کارنی ماہر اقتصادیات ہیں بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کے گورنر رہ چکے ہیں،کارنی نے مارچ 2025 میں جسٹن ٹروڈو کی جگہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا اگر چہ سیاست میں نووارد ہیں مگر اپنی اقتصادی مہارت اور بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت نے انہیں مختصر وقت میں عوام میں مقبول بنا دیا،کارنی کی قیادت میں لبرل پارٹی نے ایک مضبوط اقتصادی منصوبہ پیش کیا ہے، جس کے تحت چار سال میں 130 بلین کینیڈین ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں گے، خاص طور پر ہاؤسنگ کے شعبے میں سرمایہ کاری سے سستی اور معیاری رہائشگاہوں کی تعمیر کر کے رہائشی مکانات کی قلت کے بحران کا خاتمہ کرنا مقصود ہے، معیشت کو بھی اس سرمایہ کاری سے تقویت ملے گی۔
عام انتخابات کے اس موقع پرریاست کینیڈا کی سیاست نہائت اہم اور نازک موڑ پر کھڑی ہے، جہاں عوامی رائے، معاشی چیلنجز، عالمی دباؤ اور سیاسی قیادت کی تبدیلی جیسے عوامل آئندہ انتخابات کے نتائج کو غیرمعمولی حد تک متاثر کر سکتے ہیں،ٹرمپ کی کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے کی دھمکی،چین،بھارت کیساتھ سفارتی کشیدگی،بھارت کی طرف سے الیکشن میں مداخلت کے خدشہ کے تناظر میں دونوں بڑی پارٹیاں لبرل اور کنزرویٹو اپنے اپنے پروگرام پیش کر کے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں،تا ہم اب تک کے سیاسی جائزوں کے مطابق لبرل پارٹی کا پلہ بھاری ہے، کارنی کی قیادت میں لبرلز نے جنوری میں 24 پوائنٹس کے خسارے سے اب 6 پوائنٹس کی برتری حاصل کر لی ہے، 28 اپریل کو ہونے والے انتخابات کو صرف حکومتی تبدیلی ہی نہیں بلکہ کینیڈا کے مستقبل کے تعین کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے، اس انتخابی ماحول میں، تین بڑی جماعتیں لبرل پارٹی، کنزرویٹو پارٹی، اور نیو ڈیمو کریٹک پارٹی عوام کی توجہ اور حمائت حاصل کرنے کے لئے سر توڑ کوشش میں مصروف ہیں، خاص طور پر لبرل پارٹی کی نئی قیادت مارک کارنی اس وقت مرکز نگاہ ہیں۔
کینیڈا میں گزشتہ چند برسوں کے دوران سیاسی منظرنامے میں کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، جسٹن ٹروڈو کی قیادت میں لبرل پارٹی 2015 سے مسلسل اقتدار میں رہی، لیکن عوامی مقبولیت میں وقت کے ساتھ کمی آتی گئی، مختلف پالیسی چیلنجز، جیسے ہاؤسنگ بحران، مہنگائی، اور ماحولیاتی تبدیلی، نے لبرلز کو دباؤ میں رکھا،مارچ 2025 میں جسٹن ٹروڈو کے رضاکارانہ استعفیٰ کے بعد مارک کارنی کو وزیر اعظم بنایا گیا، جنہیں فوری طور پر ایک“تکنیکی”اور“پروفیشنل”لیڈر کے طور پر پذیرائی ملی،ان کا تقرر ایک ایسے وقت میں ہوا جب کنزرویٹو پارٹی پیئر پالیؤر کی قیادت میں رائے عامہ میں سبقت لے چکی تھی،تاہم کارنی کی آمد نے سیاسی ماحول کو مکمل بدل دیا، ان کی سادگی، اعتماد، اور معاشی مہارت نے لبرل پارٹی کو دوبارہ عوامی حمائت دلانے میں مدد دی،مارک کارنی اکثر ووٹرز کے نزدیک امید کا نیا چہرہ ہیں،مارک کارنی کو عوامی سطح پر ایک پْرسکون، سنجیدہ اور باصلاحیت رہنما کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، ان کا معاشی،مالیاتی اور اقتصادی تجربہ عالمی مالیاتی اداروں میں بھی تسلیم شدہ ہے، وہ معیشت، مہنگائی، اور مالیاتی پالیسیوں کے حوالے سے گہری بصیرت رکھتے ہیں،ان کا کہنا ہے وہ”عمل پر مبنی“قیادت کے قائل ہیں، اور محض بیانات سے آگے نکل کر حقیقت پسندانہ حل چاہتے ہیں، عوام ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ملک کو مہنگائی، ہاؤسنگ کی قلت، اور عالمی اقتصادی چیلنجز جیسے مسائل سے نکالیں گے۔
لبرل پارٹی نے اپنی انتخابی مہم میں ایک بھرپور اقتصادی منصوبہ پیش کیا ہے، جس کے تحت آئندہ چار سال میں ہاؤسنگ، گرین انرجی، ٹیکنالوجی، اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں 130 بلین کینیڈین ڈالرکی سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور معیشت کو مستحکم بنایا جا سکے گا،کنزرویٹو پارٹی کی قیادت میں پیئر پالیؤر نے اپنے بیانئے میں ٹیکسوں میں کمی، حکومتی اخراجات میں کٹوتی، اورعام شہری کو بااختیار بنانے پر زور دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ لبرل پارٹی نے معیشت کو بیجا ضوابط اور غیر ضروری اخراجات سے کمزور کر دیا ہے،نیو ڈیموکریٹک پارٹی جگمیت سنگھ کی سربراہی میں، سوشل ویلفیئر، صحت، اور تعلیمی اصلاحات پر زور دے رہی ہے، ان کا فوکس خاص طور پر نوجوان اور متوسط طبقے پر ہے جنہیں وہ ایک بہتر اور عادلانہ کینیڈا دینے کا وعدہ کرتے ہیں، 2024ء کے اواخر میں جب پیئر پالیؤر کی مقبولیت عروج پر تھی تب لبرل پارٹی کی عوامی حمائت میں خاصی کمی رونما ہو چکی تھی لیکن مارچ 2025 سے اب تک منظرنامہ کافی حد تک بدل چکا ہے، تازہ ترین پولز کے مطابق مارک کارنی کی قیادت میں لبرل پارٹی نے قابل ذکر واپسی کی ہے اور عوامی حمائت میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے جس کے اثرات لازمی طور پر الیکشن کے روز دکھائی دیں گے۔
کینیڈین عوام اس وقت جن مسائل کا سب سے زیادہ سامنا کر رہے ہیں، ان میں عمومی مہنگائی، خوراک اور رہائش کی قیمت میں مسلسل اضافہ، ہاؤسنگ بحران، ماحولیاتی تبدیلی جنگلاتی آگ، گرمی کی شدید لہریں، ماحولیاتی پالیسیاں اورصحت سہولیات کی کمی شامل ہیں،معاشی عدم مساوات کے باعث امیر اور غریب کے درمیان فرق تیزی سے بڑھ رہا ہے،مارک کارنی اور ان کی ٹیم نے ان تمام امور پر اپنی پالیسیوں میں وضاحت سے بات کی ہے جبکہ کنزرویٹو پارٹی نے زیادہ زور نجی شعبے کے فروغ اور حکومت کی مداخلت میں کمی پر دیا ہے،کینیڈا کی خارجہ پالیسی بھی انتخابی مہم کا اہم جزہے، امریکہ، چین، اور یورپی یونین کے ساتھ تجارتی تعلقات، روس،یوکرین جنگ اور اقوام متحدہ کے کردار میں شرکت جیسے امور پر ہرپارٹی مختلف رائے رکھتی ہے،مارک کارنی کا موقف ہے کینیڈا کو اپنی خودمختاری کو مقدم رکھتے ہوئے عالمی فورمز پر باوقار کردار ادا کرنا چاہیے، جبکہ کنزرویٹو پارٹی امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات اور چین سے محتاط فاصلہ برقرار رکھنے کے حق میں ہے۔ایک بات طے ہے یہ انتخابات کینیڈا کے لئے ایک فیصلہ کن لمحہ ثابت ہوں گے، عوام اس بار صرف وعدے نہیں بلکہ نتیجہ خیز ی چاہتے ہیں، اور یہی عنصر مارک کارنی اور ان کی ٹیم کو خاص بناتا ہے۔