قلم اور کالم

کالم لکھنے کے لئے قلم اٹھانا پڑتا ہے اور قلم اٹھانے کے لئے ہاتھ آگے بڑھانا پڑتا ہے۔ ویسے تو ہاتھ میں تلوار بھی پکڑی جا سکتی ہے بندوق بھی ہاتھ سے ہی اٹھائی جاتی ہے بلکہ ساری چیزیں اٹھانے میں ہاتھ کا اہم کردار ہے تاہم کون نہیں جانتا ہے کہ قلم کی کاٹ سے بڑھ کر کسی چیز کی کاٹ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے مثال انقلاب کا آغاز ہی ”علم بالقلم“ سے ہوا ہے۔ علم دیکھنے،غور کرنے اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور قلم اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات کو محفوظ کرنے کا سبب بنتا ہے اور آنے والوں کو یہ تحریریں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یونان کے فلاسفر سقراط افلاطون ارسطو وغیرہ آج بھی قلم کی اہمیت کے پیش نظر یاد کئے جاتے ہیں۔یورپ کا نشاہ ثانیہ، مسلمانوں کی سپین میں آمد اور کتابوں کا یونان سے عرب اور پھر عرب سے یورپ تک کا سفر۔ یورپ کا راتوں رات نقشہ ہی تبدیل ہوجائے۔ وہاں کے لوگوں کی سوچ کے زاویوں کا تبدیل ہو جانا اور یوں نشاہ ثانیہ ایک منفرد اور بے مثال دور کا آغاز۔ عربوں نے ویسے تو قلم اٹھایا اور پھر اہلِ قلم آگے بڑھتے چلے گئے اور افریقہ، سپین، ایران، مصر،ہندوستان بلکہ دنیا کے سارے کونوں کھدروں میں قلم کی طاقت سے لوکائی کے دِلوں میں گھر کر گئے اور جہاں جہاں بھی گئے وہاں وہاں ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے گھر بن گئے۔ صوفی ازم اصل میں یونان کی اختراع ہے، لیکن مسلمانوں کے ہاں بھی صوفی ازم کا ایک سنہری دور ہے۔ میری دانست میں صوفی خواہ یونان کے ہوں یا عرب و عجم کے۔ یہ اہل قلم کا وہ قبیلہ ہے جس نے قلم کے زور سے لوگوں کے دِلوں کی کائنات بدل دی تھی۔ ایسے تو نہ آپ کو اپنے چاروں طرف مزارات کی بھرمار نظر آتی ہے۔میں نے تو راجن پور میں ایسے مزارات بھی دیکھے ہیں جو ماضی کے اعلیٰ طرزِ تعمیر کا نمونہ پیش کرتے ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ آج اس کے دائیں بائیں بسنے والوں کو اس صاحب مزار بزرگ کے نام تک کا معلوم نہیں ہے بقول پیر سید مہر علی شاہ(مہر علی ایہہ جھوک فناہ دی۔۔ قائم دائم ذات خدا دی۔۔تیری وسدی وی جھل پل دی اے۔۔لایا مہندی خون اجل دی اے)
تخلیق اور تحریر لازم وملزوم ہوتے ہیں۔ آمد یا آورد دونوں صورتوں میں چیزوں کو ورطہ تحریر میں لانا ضروری ہوتا ہے۔ تحریر سے ہی تقریر جنم لیتی ہے اور تحریر اور تقریر دونوں سے بڑا کام لیا جاتا ہے۔ تاہم تحریر میں قلم کا استعمال اور تقریر میں زبان کا استعمال بڑا ہی حساس ہوتا ہے۔ قلم کے استعمال کی حساسیت اور قلم کے کام کی حرمت جب لوگوں پر واضح ہو گئی تو کسی کے ہاتھ میں قلم کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ بچپن میں قلم دوات کے بارے میں اساتذہ پوری تفصیل سے بتایا کرتے تھے۔ کائنات کی تخلیق میں بھی اللہ نے قلم کا اساسی کردار رکھا ہے(لکھی لوح قلم دی مائے جے موڑ سکنی اے موڑ۔۔ڈولی لے چلے کھیڑے میتھوں عذر نہ زور)۔ متذکرہ بالا حقائق سے پوری طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قلم اور قلمکار کی کیا اہمیت ہے۔ ایک لفظ اوپر نیچے بلکہ ایک نقطہ آگے پیچھے ہو جانے سے محرم مجرم بن جاتا ہے۔ بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے۔ امیدیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے آگ لگ جاتی ہے بلکہ دلبرداشتہ ہو کر عاشق نامراد کچھ بھی کرسکتا ہے اور محبوبہ اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مرجاتی ہے اور اپنے پرائے ہو جاتے ہیں۔ مزید بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے فی الحال آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہیں اعصابی طور پر کمزور افراد ان واقعات کے نتائج کو سُن اور دیکھ کر قلم اٹھانے سے مکمل طور پر توبہ نہ کر لیں اور رجوع الی الموبائل کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک نئی دنیا میں قدم رکھ کر توبہ النصوح نہ کر لیں۔ ہماری بھی توبہ۔ یہ وضاحت کرنا بھی وقت کا تقاضہ ہے کہ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں اور مذکورہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ جو کہ مثبت رُخ ہے اس کا گھنڈ اتارنے سے صورتحال یکسر بدل جائے گی اور ہر ذی ہوش اور ذی فہم کو بجانب قلم یکسو ہونا پڑے گا اور پھر زنجیریں ٹوٹ گرینگی زندانوں کی خیر نہیں اور پھر دریا جھوم کے اُٹھیں گے اور تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے۔ انقلاب اور وہ بھی بوساطت اسباب کیونکہ دنیا عالم اسباب ہے اور اس دنیا کو بنانے لئے کن کہنا پڑتا ہے اور اس کے خدوخال واضح کرنے کے لئے قلم اُٹھا کر لوح محفوظ پر تحریر کرنا پڑتا ہے۔ یوں کہانی کے ہیروز آدم اور حوا تخلیق کئے جاتے ہیں اور کہانی اپنی ایک مخصوص رفتار سے آگے بڑھتی ہے۔ قصے کہانیاں سینہ بہ سینہ اور یوں کتابی شکل۔ چھاپہ خانہ اور پورا علم وادب اور تحقیق و جستجو۔اس کہانی کا انوکھا پلاٹ، ان گنت کردار، ون پونے واقعات، حادثات اور عجائبات۔ کل سے آج اور آج کی کہانی زیر ترتیب اور زیر تکمیل ہے۔ کہانی کا تسلسل کل اور پھر پرسوں تک،بلکہ اس سے بھی آگے بہت ہی آگے جانا ہے اور ان سارے لمحوں، دنوں، مہینوں، سالوں، دہائیوں اور صدیوں کو محفوظ کرنے میں قلم اور قلمکاروں کا کردار ہے۔ یہ کردار بہت اہم ہے۔ اس کے بہت اہم تقاضے ہیں اور اس کی بھی حدودو قیود ہیں۔ کردار کی حساسیت کو لوگوں پر واضح کرنا بھی قلمکاروں کی ذمہ داری ہے۔ قلم کا استعمال۔ قلم کی سیاہی اور وہ بھی اُجلی ہونی چاہئے۔ قلم کی روانی کا یقینی بنایا جانا۔ قلم کا بروقت اور برموقعہ رک جانا۔ حسب ِ ضرورت قلم کی کاٹ جو کہ بنجر سوچ کی سنگلاخ چٹانوں کو کاٹتی چلی جائے۔ یہ سارا کچھ تب ہی ممکن ہے جب ہم قلم کی حرمت سے پوری طرح آگاہ ہوں گے۔ ایسا کب ہو گا جب میری متذکرہ بالا باتوں کا مجھے شعوری احساس ہو جائے گا۔
آج کے پرآشوب اور پر فتن دور میں قلم، کالم اور قلم کار کے موضوع پر بات کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ نوجوان نسل کے لئے تعلیم وتربیت کا ہونا ضروری ہے۔ مجموعی طور پر اہلِ قلم نے ہمیشہ ہی مثبت کردار ادا کیا ہے اور معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنا جاندار کردار ادا کیا ہے۔ بصورت دیگر چند مثالیں ہیں اور ایسے بھٹکے ہوئے کو سوئے حرم لے جانے کی ضرورت ہے تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لٹھ بھی بچ جائے، کیونکہ لٹھ سے ہم نے بڑے بڑے کام لینے ہیں ان کارہائے نمایاں کو سر انجام دینے میں لٹھ برداروں کا بھی ایک رول ہے اور اس رول کی بروقت ادائیگی کے لئے بریفنگ اور ڈی بریفنگ چاہئے۔اے دِل ناداں! وقت بہت کم ہے اور منزل بہت ہی دور ہے۔ قلم ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے اور تحریر ایسی ہو کہ قاری راہِ راست پہ آجائے۔
٭٭٭٭٭