آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری!

  آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری!
  آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اقبال نے کئی نظموں میں انسان، جبرئیل، فرشتوں، ابلیس اور جنات کا ذکر کیا ہے اور ایسے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو روزِ ازل سے آج تک انسانی آنکھ سے مستور رہے ہیں۔ بعض جگہ تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ابلیس کے وجود کو انسان کے وجود کے لئے ایک لازمہ قرار دیا ہے۔ ایک شعر میں تو اقبال یہاں تک چلے گئے ہیں:

مزی اندر جہانِ کور ذوقے

کہ یزداں دارد و شیطاں ندارد

(ترجمہ: اُس جہانِ کور ذوق میں جینے سے کیا حاصل کہ جس میں خدا ہی خدا ہواور شیطان نہ ہو)

بعض شارحین نے اس شعر کا مطلب یہ نکالا ہے کہ تخلیقِ انسانی میں ابلیس کا وجود ایک لازمہ اور ایک زندۂ جاوید حقیقت ہے۔ ابلیس آگ سے بنایا گیا ہے اور انسان کی تخلیق کا مادہ مشتِ خاک ہے۔ یہ مشتِ خاک، انبوہِ آتش پربھاری ہے۔ یہ آگ مشتِ خاک کو زیرِ نگیں تو کرتی ہے لیکن  اس حاکمیت میں آگ کی محکمومی ایک بڑا اور چبھتا ہوا سوال ہے جس کا جواب اقبال کے ہاں نہیں ملتا۔ وہ کہتا ہے:

محمد بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا

مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یامیرا؟

اقبال نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حرفِ شیریں قرار دیا ہے جس کی زبان سے بقولِ غالب اسرارِ خداوندی بیان کئے گئے ہیں:

حق جلوہ گر ز طرزِ بیانِ محمدؐ است

آرے کلامِ حق بزبان محمدؐ است

مطالعہء قرآن اور تفسیرِ قرآن ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔اگر سارا قرآن تخلیقِ کائنات کے بارے میں ہے تو اس کا مطالعہ ہربنی نوعِ انسان پر لازم آتا ہے۔ مگر اس کا کیا علاج کہ انسان ایسا نہیں کرتا۔ آج کا انسان ستاروں سے آگے نکلنے کی کوشش کررہا ہے لیکن اس کے باوجود وہ ”بلیک ہول“ پر جا کر رک گیا ہے۔وہ طرح طرح کی تاویلات گھڑتا رہتا ہے لیکن ایک ذرا سی بات اس کی کھوپڑی میں نہیں سماتی کہ کائنات کی اول و آخر جس کتاب میں موجود ہے وہ قرآن ہے جس کا ایک حرف بھی گزشتہ 15صدیوں میں تبدیل نہیں ہوا اور نہ آنے والی کئی صدیوں میں تبدیل ہو گا۔لیکن آج کی سپرپاور نے یہ باور کر رکھا ہے کہ یہ کرۂ ارض ہی ساری خدائی ہے اور بس…… اور یہاں جو مخلوق بستی ہے وہ صرف اور صرف انسان ہے حالانکہ قرآن میں ایک اور مخلوق کا ذکر بھی ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی اور جس کو ”جِن“ کہاجاتا ہے۔

اس جِن کے بارے میں بہت سے قصے مشہور ہیں جو غیرمسلموں کو دعوتِ فکر دیتے ہیں۔ قرآن میں تو ایک پوری سورہ ”الجن“ کے نام سے موجود ہے(72ویں سورہ)…… اس سورہ میں جنات کا قرآن سننا بیان کیا گیا ہے۔ یعنی دیکھا جائے تو جنات اگرچہ چشمِ آدم سے غائب ہیں لیکن موجود ہیں اور وہ دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں۔ میں کوئی عالمِ دین نہیں ہوں لیکن جنّات کے وجود پر ایمان لانا ہمارے عقائد کا حصہ ہے۔ چونکہ جنات ہمیں نظر نہیں آتے اس لئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ہماری ہر حرکت پر نظر رکھتے ہیں …… ان میں ”شریف جناتِ“ بھی ہیں اور ”بدمعاش جنات“ بھی…… لیکن یہ دونوں اقسامِ جنات کہاں بسیرا کرتی ہیں، اس کا علم انسانِ فانی کو نہیں دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں جنات ایک ”باقی“ مخلوق ہے، اسے موت نہیں آتی جبکہ فانی انسان کو موت تو آتی ہے لیکن اس کی روح ابدی ہے۔

مرورِ ایّام سے یہ روح آگے بڑھ رہی ہے۔ ہم میں سے کئی لوگوں کو جنات کو دیکھنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن ان کی ذات کو محسوس کرنے کا موقع ضرور ملا ہے۔ ہمیں رات بغرضِ آرام و استراحت عطا کی گئی ہے لیکن جنات کے لئے نہ رات ہے اور نہ دن ہے۔ وہ دن رات جاگتے ہیں۔ انسان کی عمر کی ایک حد مقرر ہے جس کے بعد روح، انسان کے جسم سے نکل جاتی ہے اور باقی زندہ انسان ہمیں ”مردہ“ قرار دے دیتے ہیں۔ لحد میں اتارتے ہوئے کسی مردے کو ہم سمجھتے ہیں کہ بس اب وہ مشتِ استخواں بن جائے گا حالانکہ ایسا نہیں ہے:

لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے

اگر ہو زندہ تو دل ناصبور رہتا ہے 

فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا

ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے

میری طرح آپ کو بھی بعض ایسے واقعات سے سابقہ پڑا ہوگا کہ جن کو کوئی معانی نہیں پہنائے جا سکتے۔ ہم اسے زیادہ سے زیادہ ایک حادثہ یا ایک حیران کن واقعہ سمجھ لیتے ہیں  جو عقلِ انسانی کے احاطے میں نہیں آتا۔ لیکن ہوتا ضرور ہے۔ ہمارے سامنے روز و شب ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کی کوئی تاویل یا تفسیر بیان نہیں کی جا سکتی۔ ان واقعات کی خبر اگر کسی کو ہے تو وہ ہماری ”روح“ ہے اور روح کا علم اللہ کریم نے کسی بھی مخلوق کو نہیں دیا۔

قرآن کریم میں اس ”انسانی لاعلمی“ کا ثبوت موجود ہے۔ مشرکین مکّہ نے آنحضورؐ سے بار بار یہ سوال کیا کہ ”اے محمد اپنے رب سے پوچھ کر بتاؤ کہ روح کیاچیز ہے؟“ آنحضور یہ سوال سن کر چپ ہو جاتے تھے۔ لیکن جب مشرکین کا اصرار بڑھتا چلا گیا تو آپؐ نے حضرت جبریل کی وساطت سے خدا سے پوچھا کہ روح کیا چیز ہے؟ اس سوال کا جواب بڑا مختصر اور بڑا معنی خیز تھا۔جو یہ تھا کہ: ”کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کی طرف سے ایک حکم ہے“(سورہ الاسراء آیہ نمبر85) یعنی روح بھی ایک مخلوق ہے جو اللہ کے حکم کی تابع ہے۔ وہ حکم کرتا ہے تو بدن سے نکل جاتی ہے۔لیکن یہ حکم کب صادر ہوتا ہے، اس کا علم صرف خالقِ کائنات کو ہے۔ اللہ کا یہ جواب جب حضورؐ کو دیا گیا تو آپ پروہ کیفیت طاری نہ ہوئی جو حضرت موسیٰ پرکوہِ طور کے واقعے کے وقت ہوئی تھی۔

حضرت موسیٰ خدا سے ہمکلام ہوا کرتے تھے تو اپنی قوم (بنی اسرائیل) کو فرمایا کرتے تھے کہ اللہ نے فلاں فلاں حکم صادر کیا ہے اور جب ان کی قوم نے یہ سوال کیا کہ اپنے رب سے پوچھئے کہ وہ اپنی صورت آپ کو دکھلائے تو آپ نے کئی بار ”ربِّ ارنی“ کہا  اور ہر بار جواب آیا: ”لن ترانی“ …… یعنی تو مجھے نہیں دیکھ سکتا…… اور جب حضرت موسیٰ اپنی قوم کو اللہ کا یہ پیغام آکر بتاتے تھے تو وہ تسلیم نہیں کیا کرتی تھی اور پھر وہی سوال دہراتی تھی کہ اپنے اللہ سے پوچھو کہ وہ کیا چیز ہے، اس کی شکل  و صورت کیا ہے؟ وہ کس چیز کا بنا ہوا ہے اور اس کی جغرافیائی اور حِسّی حقیقت کیا ہے؟ اور جب حضرت موسیٰ کا اصرار بڑھتا چلا گیا تو وہ واقعہ پیش آیا جو ”جلوۂ طور“ کے نام سے منسوب ہے۔ حضرت موسیٰ خدا کے ایک ذرا سے جلوے اور جھلک کو برداشت نہ کر سکے اور غش کھا کر گر گئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کا علم تمام قارئین کو ہے۔ میں تو یہاں یہ عرض کرنے والا ہوں کہ آج کا انسان کسی پیغمبر کے حکم کو تسلیم نہیں کرتا (مغرب کا انسان)…… اور کرّۂ فضائی سے نکل کر کرۂ خلائی  تک کی وسعتوں کو کھنگالتا پھرتا ہے۔ لیکن اس کا انجام وہی ہے جس کا ذکر میں نے سطور بالا میں کیاہے کہ انسان کو اپنی تلاش کی انتہا میں جو چیز نظر آئی ہے وہ ایک ”سیاہ سوراخ“ (Black Hole) ہے جس کے آگے اور کچھ نظر نہیں آتا۔

لیکن جب حضورؐ نے اللہ کریم سے بار بار روح کی حقیقت والا سوال پوچھا تو اللہ کا جواب بہت مختصر تھا اور بنی اسرائیل کے برعکس امتِ مسلمہ نے اس جواب کو تسلیم کیا کہ روح واقعی ایک ”امرِ رّبی“ ہے جس کو صرف رب کائنات ہی جانتا ہے۔ مولانا عبدالرحمن جامی کا شعر ہے:

حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ، یدِ بیضا داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

(اے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ اور یدِبیضا رکھتے ہیں۔یہ سب صفات وہ ہیں کہ جوباقی محبوبانِ  خدا رکھا کرتے تھے لیکن تُو ان سب میں انوکھا اور یگانہ ہے اور یہ تمام خوبیاں تجھ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہیں!“

مزید :

رائے -کالم -