مجرمانہ خاموشی

چند روز پہلے نظریۂ پاکستان ورکرز ٹرسٹ سے فون آیا کہ پاکستان کی 70 ویں سالگرہ کے حوالے سے پروگراموں کا سلسلہ شروع ہے اور آپ نے ’’پاکستان میں عدلیہ کے ستر سال‘‘ پر ہونے والے مذاکرے میں شامل ہونا ہے۔ مقررہ وقت پر نظریۂ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کی لائبریری میں پہنچا تو سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار جناب اسلم زار سمیت کئی وکلاء وہاں موجود تھے۔ وہیں پتہ چلا کہ صدارت جناب چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد کریں گے۔ تھوڑی دیر میں میاں محبوب احمد صاحب تشریف لے آئے جو تراسی سال عمر کے باوجود انتہائی مستعد اور صحت مند نظر آ رہے تھے۔ گفتگو کا آغاز بھی انہوں نے کیا اور مختلف ادوار میں عدلیہ کی کارکردگی اور جج صاحبان کے حوالے سے اپنے خوبصورت خیالات سے نوازا۔ کچھ ایسے جج صاحبان کا بھی ذکر ہوا جن کے حوالے سے انہوں نے انتہائی خوبصورت الفاظ میں اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا یا رائے دینے سے ہی گریز کیا۔ دیگر حاضرین نے بھی موضوع پر اظہار خیال کیا۔ میاں محبوب احمد صاحب نے مجھے مخاطب کر کے خاص طور پر گلہ کیا کہ آپ نوجوانوں نے وکالت کو جو انتہائی قابل قدر اور شرفاء کا پیشہ تھا زور زبردستی کا پروفیشن بنا دیا ہے جہاں دلیل کی بجائے دھونس دھاندلی کا راج ہے۔ آج لوگ وکالت کو معزز پیشہ نہیں سمجھتے۔ لوگ آپ سے ڈرتے ہیں آپ کی عزت نہیں کرتے۔ پاکستان کے نیک نام ترین جج صاحب کے منہ سے نکلنے والے یہ الفاظ بے بنیاد نہیں ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم وکلاء میں بھی معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح اکثریت ان امن پسند اور قانون کا احترام کرنے والوں کی ہے جو محنت سے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں جن کے خلاف بالعموم کوئی شکایت بھی نہیں مگر عوام میں وکلاء کا ایک خاص امیج بنا دیا گیا ہے۔ میں نے بصد احترام عرض کیا کہ سر وکلاء کی اکثریت تو خود اس قسم کے واقعات سے نالاں ہے جن میں قانون ہاتھ میں لیا جائے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قسم کے واقعات کے بالواسطہ ذمہ دار وہ جج صاحبان بھی ہیں جو یا تو انصاف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا بوجوہ انصاف کرنا نہیں چاہتے۔ میاں محبوب احمد فرمانے لگے کہ یہ بات درست ہے کہ نااہلیت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے خاص طور پر عدالتی نظام کی کامیابی کا زیادہ انحصار جج صاحبان کی قابلیت اور ایمانداری پر ہوتا ہے۔ مگر آپ جن کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ اکثریت میں ہیں وہ چپ کیوں ہیں۔ وہ لوگ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرتے وہ اپنے درمیان موجود قانون کی عملداری پر یقین نہ رکھنے والوں کو اپنے آپ سے علیحدہ کیوں نہیں کرتے۔ بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز میں اچھی شہرت کے حامل وکلاء کو منتخب کیوں نہیں کرتے۔؟
جناب اسلم زار کی دلیل تھی کہ سارا پاکستانی معاشرہ ہی چونکہ انحطاط کا شکار ہے لہٰذا وکلاء کو اور عدالتوں کو بھی معاشرے سے علیحدہ کر کے دیکھنا درست نہیں۔
لوگ ہمیشہ نمبر 1 کی پیروی کرتے ہیں اور جب تک ملک کا چیف ایگزیکٹو یا حکمران اپنی مثال سے لوگوں کو ایمانداری، قانون کی پاسداری اور انصاف کا سبق نہیں دے گا معاشرہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اسلم زار کی یہ دلیل پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑانے سے یوں بھی دل کو لگتی ہے کہ تحریک پاکستان میں قائداعظمؒ کے ساتھ کام کرنے والے ان کے ساتھیوں کے حوالے سے یہ بات بہر حال اپنی جگہ درست ہے کہ قائد کی وفات کے بعد گو اقتدار کی کشمکش تو دکھائی دیتی ہے مگر ان بزرگوں پر بالعموم بدعنوانی کا الزام دکھائی نہیں دیتا۔
اس وقت پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہی یہ ہے کہ بلا شک و شبہ اکثریت چاہتی کہ قانون کی پاسداری ہو۔ مسلمہ معاشرتی اصولوں کا بول بالا ہو۔لوگوں کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں یکساں مواقع حاصل ہوں۔ بدعنوانی کا قلع قمع ہو، مگر باوجود اس خواہش کے ہر جگہ وہی ایک یا دو فیصد لوگ ہی چھائے ہوئے ہیں جو کسی بھی اصول پر کسی ضابطے پر یقین نہیں رکھتے اور مزید بد قسمتی یہ ہے کہ ہر ہر شعبہ ہائے زندگی میں یہی ایک دو فیصد نمبر 1 بھی ہیں اور ایسے لوگوں کا نمبر 1 ہونا معاشرتی بگاڑ کی بنیادی وجہ ہے کیونکہ با لعموم لوگ اب اس سوچ پر ایمان لاتے جا رہے ہیں کہ ایمانداری اور محنت سے پاکستان میں کوئی بہتر مقام حاصل کرنا نا ممکن ہے۔ اگر ترقی کرنا ہے تو اسی اصول کو اپنانا ہوگا جس کو اپنا کر یہ لوگ نمبر 1 بنے بیٹھے ہیں۔ دکھ کی بات ہے کہ بجائے معاشرہ ایسے لوگوں کی تصحیح کرتا انہیں رول ماڈل بنا لیا گیا ہے اور کامیابی کا راستہ بدعنوانی اور انصاف سے انحراف قرار پاتا جا رہا ہے۔ غور طلب سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت حال کے ذمہ دار ایک دو فیصد لوگ ہیں یا وہ 98 فیصد، جو دم سادھے بیٹھے ہیں۔ غلط سے غلط واقعہ ہونے کے باوجود جن کے مراقبے میں خلل نہیں پڑتا۔ جو برُے کو منہ پر برا کہنے کی بجائے علیحدگی میں کڑھتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، جو نمبر 1 کے انتخاب کے موقع پر تو جرأت کا مظاہرہ نہیں کرتے جن کی نظر میں ایمانداری اور شرافت نمبر 1 کے لئے غیر ضروری قرار پاتی ہے اور پھر نا انصافی کا گلہ کرتے ہیں۔ اکثریت کو کبھی نہ کبھی تو اپنی مجرمانہ خاموشی توڑنا ہو گی ورنہ۔!
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں