امّاں اور سیاسی اشتہارات
دنیا میں بہت سی چیزیں اور واقعات عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ مطلب ان کا ہونا ہی عجیب ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک عدد واقعہ ہماری ہردلعزیزپھو پھو کے گھر بھی وقوع پذیر ہونے والا تھا۔ یعنی ان کے چاند سے بیٹے (جو بس ان کی آنکھ سے ہی چودہویں کا دکھتا تھاجبکہ باقی سب کو صرف گرہن زدہ لگتا تھا) کی بارات چاند سی دلہن لے جانے کو تیار تھی۔
تعریفیں سن سن کر تو ہم کیا ،پورا خاندان ہی بے تاب تھا کہ کس وقت دلہن صاحبہ کا دیدار نصیب ہو۔۔بقول پھو پھو بڑی ذمہ دار ہے ہونے والی بہو۔۔کھانا کیا ہی کمال بناتی ہے۔۔ایسے گھر کا سارا کام مکمل کرتی ہے کہ کوئی مشین بھی نہ کرپاتی ہو گی۔۔خوش گفتار،خوش اخلاق،اعلٰی تعلیم یافتہ اورحسن تو جناب چندِ مہتاب اورنہ جانے کیا کیا۔۔
اب تو باقاعدہ اس دلہن کی غائبانہ تعریفوں پر اماں کی شدید گھوری پڑتی تھی (جس کا مطلب یہ بتانا تھا کہ شو کیس میں سجنے کے لیے یہ سب صفات بہت اہم ہیں جو کم از کم مجھ میں تو نہیں تو فکر لازم تھی کہ چاند سا داماد ان کو کیسے ملے گا)۔
خیر جناب نکاح کے چھوارے تناول فرمائے اور دیدارِ مہتاب نصیب ہوا ۔۔پہلی نظر میں تو ہمارے منہ سے بھی سبحان اللہ ہی نکلا،بلاشبہ خوبصورتی تو بہت تھی۔۔آنکھ اب ادھر ادھر دیکھنے کو تیار نہیں تھی لیکن موسم ا بر آ لود تھا تو سب نے جلد واپسی کے لیے تیاری پکڑی۔میں ذرا اپنی بے چین طبیعت کے تحت جلدی سے دلہن کی گاڑی میں گھس گئی مگر بدقسمتی سے ایسی زور کی بارش شروع ہوئی کہ اللہ کی پناہ۔۔سونے پرسہاگہ یہ تھا کہ گاڑی کا ٹائربھی بلاسٹ ہو گیا۔۔ اب دوسری گاڑی میں سوار ہونے کے لیے اپنی گاڑی سے باہرنکلے تو بارش سے بھیگنا مقدر ہوگیا۔جلدی سے گاڑی بدلی اور گھر پہنچے۔دلہن کو مہمانوں کے درمیان بیٹھانے کی رسم پوری کرنے کا وقت آیا تو محترمہ نے گھونگھٹ اٹھانے اور باہر بیٹھنے سے صاف انکار کر دیا۔خیر انہیں کمرے میں پہنچایا گیا تو گھونگھٹ اٹھا اور جو منظر ان آنکھوں نے دیکھا تو سمجھ نہ آیا کہ بے اختیار ہنسا جائے یاچیخا۔۔
یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے آپ کسی اچھی کمپنی کا پینٹ جب گھر پر کرنے کے لیے استعمال نہیں کرتے تو پہلی بارش ہی سارا رنگ دھو ڈالتی ہے ۔کچھ ویسا ہی منظر تھا۔بھابھی کو چھونے کے لیے ہاتھ آگے بڑھائے ہی تھے تو پتا چلا ۔۔نقلی گھنی پلکیں، لینز،نقلی بال،نقلی ناخن ۔۔اب میں نے ڈر کر کہا’’ بھابھی دانت تو اپنے ہی ہیں ناں؟‘‘ اس پر شیرنی کی طرح گھو رکر رہ گئیں ۔
گو یہ واقعہ کوئی دو سال پرانا ہے مگر اس سے تبدیلی یہ آئی کہ اب میری قدر میری اماں کی نظر میں بڑھ گئی ہے الحمداللہ۔۔
قصہ یاد یوں آیا کہ آج کل ٹی وی پر الیکشن کے حوالے سے ہر جماعت کے کیا عجیب معصومانہ اشتہارات چل رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا تو اپنا پیٹ بھر رہا ہے مگر بیچاری معصوم عوام پھنس گئی کہ کس کا یقین کرے اور کس کا نہیں؟ بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے ہاں اکلوتے بیٹے کے لیے گھر گھر جا کر چاند سی دلہن کی تلاش کی جاتی ہے مگر یہاں کچھ مختلف صورتِ حال یوں ہے کہ بہت سوں میں سے جس جس کو جو جو پسند ہے اس نے اسے چننا ہے۔ قبول ہے کہہ کر نہی بلکہ ووٹ پر ٹھپہ لگا کر۔۔!
اب احوال کچھ یہ کہ آئے روز کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی بہترین پروڈکشن،ساونڈ ایفیکٹس اور زبردست کونٹینٹ کے ساتھ کوئی نہ کوئی وڈیو ،پیڈاشتہار کی صورت میں براڈکاسٹ ہوتی ہے ۔اگر آپ ادب سے تعلق رکھتے ہیں تو بھی آپ کے لیے اس میں بہت کچھ سیکھنے کو دستیاب ہے جیسے کہ مودب ہو کر بات کیسے کی جاتی ہے؟اور اگر اداکاری کا شوق رکھتے ہیں تو قسم کھا کر کہتی ہوں ۔اس سے بہتر موقعہ آپ کو دوبارہ نہیں ملے گا ۔اس کے ساتھ ساتھ پروڈیکشن بھی ایسی کمال کہ کہاں کہاں عوام کی نبض پرپاؤں رکھا جاسکتا ہے۔
جیسے جیسے الیکشن کے دن قریب آ رہے تھے یہ میرا معمول بن گیا تھا کہ ایسا کوئی اشتہار کہیں مس نہ ہو جائے لیکن کل اماں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو غصے سے ٹی وی کا سوئچ ہی نکال دیا اور سیاسی انداز میں بولیں’’بھول گئی پھو پھو کی بہو کیا‘‘؟ میں نے حیرت سے ماں کو دیکھا کہ یہاں پھو پھو کی بہو کا ذکر کیسا ؟ چشمہ ناک پر چڑھاتے ہوئے بولیں’’کچھ رنگ روغن تو بارش نے دھو دیا تھا اور باقی وقت نے۔۔ہاتھ کیا آیا ۔۔بس پچھتاوا‘‘۔توقف کیا پھر ناصحانہ انداز میں کہا ’’گن اپنے ہوتے تو بتانے نہ پڑتے،خود نظر آتے بٹیا۔۔!یہاں تو دو سال میں سچ جھوٹ سامنے آ گیا۔ انہیں تو پانچ سال ملتے ہیں۔۔کچھ کیا ہوتا عوام کا بھلا تو آج دلہن کی طرح سج سنور کر نہ آنا پڑتا۔۔جوہری کو ہیرے کی پہچان ہونی چاہیے ورنہ ہیرا بے قیمت یا پھرجوہری بدقسمت۔۔! ستر سال سے سیلاب دیہاتوں کو بہاتے چلے آرہے ہیں مگر اب تک ایک ڈیم تک نہ بن سکا۔۔اب بھی ساون نے تباہی لانی ہے تو غیریب سروں پر چارپائیوں اور بوڑھی ہڈیوں کا بوجھ اٹھا کر آسمان کی طرف خدا کے بعد ہیلی کاپٹر کا انتظار کرینگے۔۔یہ سب گھونگھٹ میں چھپی وہ دلہنیں ہیں جنہوں نے لوگوں کے جذبات کا فائدہ اٹھانے کے لیے پھر لاکھوں روپے لگا کر خود کو سجایا ہے مگر گھونگھٹ اٹھا کر نگاہ نہیں ملائیں گے کیونکہ اندر سے خالی ہیں‘‘ اماں کہاں چپ ہونے والی تھیں۔’’دیکھ لینا دھل جائے گا ان کا ہار سنگھار، ذرا سی بارش ہونے تو دو۔۔‘‘
’’ اب زمانہ بدل گیا ہے اماں‘‘میں نے کہا
یہ سن کر اماں سیریس ہوگئیں۔’’دیکھو پترآکسفورڈ، ہارورڈ،کیمبرج کے پڑھے امیرزادے کیا جانیں اس مٹی میں کیا ہے،یہاں کون سی زینب کتنی بارزندہ درگور ہوئی؟تھر کے صحرامیں موت نے کتنی بار رقص کیا؟ مستونگ میں خون میں لتھڑی پڑی سیکڑوں لاشوں کی کیا اوقات ان کے سامنے؟ انہیں تو بس حق حکمرانی چاہیے‘‘
میں پلکیں جھپکے بغیراماں کے چہرے پر آنے والے تغیر و تبدل کو دیکھ ہی رہی تھی کہ انہوں نے بات جاری رکھی۔ ’’سنولڑکی ،اس ملک کی تقدیر اگر کوئی بدل سکتا ہے تو یہ وہ ہے جس نے فاقے کاٹے ہوں،بارش کے گدلے پانی میں سے کسی اپنے کا جنازہ اٹھایا ہو،جس نے بیٹی کی عصمت کی حفاظت کرنے والے باپ اور بھائی سے تربیت لی ہو،جس نے کبھی رات کو خود سوکھی روٹی کھا کر اپنا کھانا بھوکے ہمسائے کے بلکتے بچوں کو دیا ہو۔ہاں اگر کوئی ایسا ہے ناں تو اسے کبھی خود کو گھونگھٹ میں چھپانا نہیں پڑے گا پتر۔۔اورنہ ہی اسے کسی ہار سنگھار کی ضرورت پڑے گی۔۔!‘‘ میں دیر تک اماں کا منہ تکتی رہ گئی۔کتنا سچ اور حق بول رہی تھیں وہ۔
(سعدیہ مظہر صحافی اورسماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف قومی جرائد میں انگریزی اور اردو زبان میں لکھتی ہیں۔ان کا ای میل saddiausman04@gmail.com ہے)
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔