قدرت اللہ شہاب ۔۔۔۔جنہوں نے اہم سیاسی و تاریخی واقعات کو الفاظ کے کیمرے میں قید کیا

آج ملک کے نامور سول سرونٹ اور اردو ادیب قدرت اللہ شہاب کی برسی ہے ،قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917ء میں گلگت میں پیدا ہوئے۔ پرنس آف ویلیز کالج جموں سے1937ءمیں بی۔ایس۔سی کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج، لاہور سے انگلش میں ایم۔اے کیا۔ 1940ء میں آئی۔سی۔ایس کا امتحان پاس کیا۔ آپ کو ریاست جموں و کشمیر کا پہلا مسلم آئی۔سی۔ایس افسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، تقسیم ہند سے قبل ہندوستان کے مختلف اضلاع میں آئی۔سی۔ایس افسر کے طور پر اپنے سرکاری فرائض انجام دیئے۔ 1947ءکے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے۔ سکریٹری جنرل آزاد کشمیر، ڈپٹی سکریٹری وزارت آزاد کشمیر، ڈپٹی کمشنر ضلع جھنگ، ڈأریکٹر انڈسٹریز حکومت پنجاب، سکریٹری گورنر جنرل ملک غلام محمد، سکریٹری گورنر جنرل میجر جنرل سکندر مرزا، سکریٹری صدر جنرل محمد ایوب خان، سکریٹری اطلاعات ، سکریٹری وزارت تعلیم ، سکریٹری جنرل پاکستان رأٹرز گلڈ (2 بار) جیسے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر اور یونیسکو ایگزیکٹو بورڈ کے رکن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ ایک بھر پور اور مصروف زندگی گزارنے کے بعد آپ نے 24جولائی 1986ء کو داعئی اجل کو لبیک کہا۔
اردو ادب کی تاریخ میں قدرت اللہ شہاب کو اہم مقام حاصل ہے۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا، پہلا افسانہ 1938ء میں ’’چندراوتی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔یہ وہ زمانہ تھا جب اردو افسانے کے افق پر سعادت حسن منٹو،راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر، مرزا ادیب اور ممتاز مفتی جیسے افسانہ نگار ستاروں کی مانند روشن تھے۔ قدرت اللہ شہاب کی ادبی زندگی اگرچہ ایک طویل عرصے پر محیط ہے لیکن سرکاری فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہنے کی وجہ سے انھوں نے اپنے معاصرین کے مقابلے میں بہت کم لکھا مگر جو کچھ بھی لکھا وہ فکری و فنی اور موضوعاتی اعتبار سے بلند معیار کاحامل ہونے کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے نثری سرمائے میں بھی گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا فسادات کے موضوع پر مبنی ایک طویل اور شاہ کار ناولٹ ’’یاخدا‘‘ 1948ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے 3 افسانوی مجموعے ’’نفسانے‘‘، ’’ماں جی‘‘ اور ’’سرخ فیتہ‘‘ شائع ہوئے۔ یہ تینوں افسانوی مجموعے ان کی زندگی میں کئی بار شائع ہوئے لیکن جو تصنیف ان کی شہرت وعظمت کا باعث بنی اور جس نے انھیں جاوداں کر دیا وہ ان کی وفات کے 1 سال بعد 1987ءمیں ’’شہاب نامہ‘‘ کے روپ میں شائع ہوئی۔قدرت اللہ شہاب کی وفات سے پہلے ’’شہاب نامہ‘‘ کے ابتدائی چند ابواب ’’سیارہ ڈائجسٹ‘‘، ’’اردو ڈائجسٹ‘‘، ’’’معاصر‘‘، '’دستاویز‘‘، ’’نیا دور‘‘ اور ’’تخلیقی ادب‘‘ جیسے مختلف ادبی رسائل وجرائد میں شائع ہوچکے تھے۔ 1987ءمیں کتابی صورت میں شائع ہونے کے بعد اس کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ ایک ہی سال میں اس کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔1987ء سے لے کر اب تک اس آپ بیتی کے بیسیوں ایڈیشن بر صغیر ہند و پاک کے مختلف اشاعتی اداروں سے شائع ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
’’شہاب نامہ‘‘ ایک اہم اور دلچسپ آپ بیتی ہے۔اردو خودنوشت سوانح عمری کی تاریخ میں اس کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔اس کی اہمیت مختلف حوالوں سے ہے۔یہ نہ صرف اردو کے غیر افسانوی ادب کا شاہ کار نثری پارہ ہے بلکہ اپنے عہد کاایک اہم سیاسی وتاریخی مرقع بھی ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس میں بیسویں صدی کے تمام اہم سیاسی و تاریخی واقعات کو الفاظ کے کیمرے میں قید کیا گیااور ا ن واقعات کے کیا اثرات مرتب ہوئے اس کی بھی مکمل تصویر کشی کی گئی ہے۔یہ مصنف کی زندگی کے شب وروز کے حالات وواقعات کی ایک دلچسپ کہانی بھی ہے اور ان کے عہد کی ایک تلخ داستان بھی۔اس کے اوراق معلومات افزا ءبھی ہیں اور درد آمیز بھی۔اس کے صفحات تقسیم ہند کے دوران کے ان وحشت ناک اور خون ریز فسادات کی تصویر کشی سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے روئے زمین پر انسانیت کو ہمیشہ کے لیے شرمسار کر کے چھوڑا۔ اس کے مطالعہ سے1947ء سے قبل کے ہندوستان کی سیاسی وسماجی صورت ِحال کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔اس میں ایک طرف حصول پاکستان کے سلسلے میں کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین سیاسی رسہ کشی کا عالمانہ تجزیہ کیا گیاہے وہیں دوسری طرف قیام پاکستان کے بعد اس کی ابتدائی مشکلات اوروہاں کے سیاست دانوں کے بارے میں دلچسپ معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں ۔اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر اور اس کی تاریخ پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔غرض اس کتاب میں مختلف موضوعات کو احاطہ تحریر میں لیا گیا ہے۔لیکن قدرت اللہ شہاب نے ان تمام موضوعات کو آپ بیتی کی ہئیت میں اپنی ذات کے وسیلے سے بیان کیا ہے اوریہی اس خودنوشت سوانح عمری کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
انتخاب : سلیم خان