علم دشمنی
کئی ترقی پذیر ممالک آزادی کی نعمت پا کر بھی پسماندگی سے نجات نہیں پا سکے تو اس کی ایک بڑی وجہ ان کا نظام تعلیم ہے جو آج بھی طرح طرح کے تعصبات میں ڈوبا ہوا ہے، بعض بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگ زیادہ تر انہی کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں جن سے ان کی شہرت کو پَر لگ جائیں اور ترقیوں کا گراف اوپر سے اوپر ہوتا جائے۔ان سے کسی بھی طرح کا اختلاف رکھنے والوں کے لئے ترقی کے دروازوں کا کھلنا مشکل ہو جاتا ہے۔حال ہی میں مجلس ترقی ئ ادب لاہور کے علمی جریدے ”صحیفہ“ کا مکاتیب نمبر(جلد سوم) منظر عام پر آیا ہے۔اس کی ضخامت 670 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں متعدد اصحاب علم و دانش کے مقالات شامل ہیں۔مرتبین نے مکتوب نگاران کے حالاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ توضیحی نوٹس بھی قلمبند کیے ہیں، جن کی وجہ سے قاری کے لئے مکاتیب کے مندرجات کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے۔ علم و ادب سے لگاؤ رکھنے والے جانتے ہیں کہ خطوط کے ذریعے سے ہم خطوط نگاروں کی نفسیات اور مسائل زندگی سے ان کی نبرد آزمائی کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
”صحیفہ“ کے زیر نظر مکاتیب نمبر میں علی گڑھ یونیورسٹی کے معروف پروفیسر، ڈاکٹر مختار الدین احمد مرحوم کے چند خطوط(بنام ڈاکٹر ریاض الاسلام شامل ہیں) ایک خط میں ڈاکٹر صاحب نے اپنا ایک ذاتی سا مسئلہ رقم فرمایا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ ذاتی ہوتے ہوئے بھی نو آزاد اقوام کے رویوں کی بہت اچھی عکاسی کرتا ہے۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
”میں نے اپنی چھوٹی بیٹی فریدہ مختار کے پی ایچ ڈی کے لئے یہ موضوع (قدیم مدارس کی تاریخ) طے کیا تھا۔ اس کی درخواست اور موضوع سے متعلق یاد داشت جامعہ ملیہ (دہلی) کے شعبہ کو بھجوائی تھی لیکن یہاں (یعنی علی گڑھ یونیورسٹی) کے شعبے کے بعض اصحاب کے اثرات وہاں ایسے تھے کہ موضوع کو نامنظور کرا دیا۔کہتے تھے یہ موضوع اس قابل نہیں کہ اس پر پی ایچ ڈی کیا جا سکے۔سبحان اللہ! بچی ایسی بددل ہوئی کہ عربی میں اس نے ڈاکٹریٹ کا خیال ہی چھوڑ دیا“۔ (ص299:)
پنجاب یونیورسٹی میں اپنے تیس سالہ دورِ تدریس میں ایسے کئی واقعات میرے تجربے اور مشاہدے میں آئے۔میرے ایک دیرینہ دوست سلیم منصور خالد نے پنجابی میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے ایک شاعر پر خاکہ (Synopsis) تیار کر کے شعبہ پنجابی(اورینٹل کالج) کے سربراہ کے سامنے رکھا۔صدر شعبہ نے خاکہ ملاحظہ فرماتے فرماتے پوچھا: آپ نگران کسے بنانا چاہتے ہیں؟ سلیم نے صدر شعبہ کے ایک جونیئر رفیق ِ کار ڈاکٹر اسلم رانا کا نام لیا تو صدر شعبہ نے فوراً خاکہ کی فائل بند کر کے سلیم کی طرف بڑھا دی اور کہا: ”آپ یہ انہیں ہی دکھا لیں!“ میں نے اپنے دوست سے کہا: تم نے تو اپنی ناکامی کا خود ہی سامان کر لیا ہے۔ سلیم اسلم رانا سے ملا اور انہیں سارا واقعہ گوش گزار کیا تو انہوں نے سمجھایا: اگر آپ ڈاکٹریٹ کرنا چاہتے ہیں تو صدرِ شعبہ ہی کو نگران بنا لیں ورنہ آپ کی درخواست منظور نہ ہو سکے گی۔وہی ہوا، بورڈ آف سٹڈیز (جس نے خاکے کی منظوری دینی تھی) کے تین ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی گئی جس نے یہ رائے دینی تھی کہ اس موضوع پر ڈاکٹریٹ ورک ہو سکتا ہے یا نہیں۔بعد میں وقفے وقفے سے بورڈ کے اجلاس منعقد ہوئے لیکن کمیٹی کے فاضل ممبران کسی نہ کسی بہانے سے اپنی رائے پیش کرنے سے گریز کرتے رہے۔ حفیظ تائب مرحوم بھی بورڈ کے ممبر ہوتے تھے، وہ کمیٹی کے اراکین کو برابر توجہ دلاتے رہے کہ وہ اپنی آراء سامنے لائیں۔
بالآخر آراء سامنے آئیں تو وہ موضوع کے سرا سر خلاف تھیں۔ حفیظ تائب نے کمیٹی کے ایک ممبر سے پوچھا، کیا آپ نے اس شاعر کو پڑھا ہے یا آپ اسے جانتے ہیں؟اس ممبر نے جواب دیا،میں نہ اسے جانتا ہوں نہ کبھی اس کا کلام میری نظر سے گزرا ہے! یہ سنتے ہی حفیظ تائب شدید غصے میں آ گئے، فرمانے لگے: اگر آپ شاعر کو نہیں جانتے اور نہ اس کے کلام سے واقف ہیں تو پھر آپ نے یہ رائے کیسے دے دی کہ اس پر پی ایچ ڈی نہیں ہو سکتی اصل مسئلہ یہ تھا کہ کمیٹی کے ممبران نے وہی کچھ کرنا تھا جس کا انہیں صدرِ شعبہ کی طرف سے اشارہ ملا تھا۔خیر، تمام رکاوٹوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح خاکہ منظور ہو گیا۔سلیم کو جب یونیورسٹی کی طرف سے منظوری کی چٹھی ملی تو معلوم ہوا کہ صدرِ شعبہ نے بڑی ترکیب سے موضوع میں یہ بات بھی ڈال دی کہ اسکالر شاعر کے تمام کلام کی تدوین کا فریضہ بھی ادا کرے گا جو قطعی ناممکن تھا، چنانچہ سلیم منصور نے بھی ڈاکٹر مختار الدین احمد کی بیٹی کی طرح بددل ہو کر پی ایچ ڈی کرنے سے توبہ کر لی۔
علم دشمنی پر مبنی ایسے بے شمار واقعات کا میں عینی شاہد ہوں بلکہ ایسے رویوں ہی نے مجھے بھی دلبرداشتہ کر دیا اور میں پی ایچ ڈی کرنے کی ”سعادت“ سے قطعی محروم رہ گیا۔