ہر چہرہ حسین ہے
پرانے شاعر اور ادیب محبوبہ کی خوبصورتی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے، ایسی ایسی تشبیہات سے کام لیتے کہ خدا کی پناہ۔ ادب تو خواتین بھی تخلیق کرتی تھیں،لیکن کبھی کسی خاتون نے ایسے غیر حقیقی اوصاف مردوں میں ڈھونڈے، نہ اس حد تک مبالغہ سے کام لیا جتنا مرد حضرات نے لیا ہے۔ عورتوں کو کم عقل تصور کرنے والوں نے شاید ہی کسی عورت کو مرد کی ایسی تصویر پیش کرتے دیکھا ہو جسے عقل تسلیم نہ کرے۔ خواتین کے ناولوں ہی کو لیجیئے وہ زیادہ سے زیادہ اس طرح تعریف کریں گی گھنے بال، جاذبِ نظر، گھنی مونچھوں تلے شریر مسکراہٹ۔ اگر خواتین چاہتیں تو گھنی مونچھوں کو گنے سے تشبیہ دے دیتیں، لیکن پڑھنے والے جانتے ہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ البتہ مرد لکھنے والوں کو کوئی ایک بھی انسانی خوبی اپنی محبوبہ میں نظر نہیں آئی۔ سرو قد، ناگن جیسی زلفیں، صراحی سی گردن، ہرنی سی چال۔ ان تشبیہات سے لگتا ہے کہ شاعروں نے محبوبہ کو کبھی انسان ہی نہیں سمجھا، ورنہ ایسی تشبیہات نہ ڈھونڈتے، ان تشبیہات پہ تو شاعر کی محبوبہ کا فوری رد عمل بنتا تھا،بلکہ حسن کی ایسی بے عزتی پر ہتک حسن کا دعویٰ حلال تھا، لیکن کسی نے نہیں کیا۔ اللہ جانتا ہے ایسی تعریف پڑھ سن کر دوسروں کو بھی کبھی تعجب ہوا نہ اعتراض۔ کہ شاعر جانے محبوبہ جانے۔
لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ گذشتہ دِنوں ایک مشہور خاتون نے برضا و رغبت ایک شخص سے شادی کی، تو لوگوں کو جانے کیا ہوا کہ وہ اس خاتون کے پیچھے پڑگئے، شادی کہ تصاویر وائرل ہوئیں، خوب چرچا ہوا، سینکڑوں میمز بنیں، ہزاروں کی تعداد میں کمنٹس اور لائیک سمیٹے گئے۔ شادی خاتون نے کی، تعجب لوگوں کو ہوا، اکثر لوگوں کو اعتراض تھا کہ اتنی خوبصورت خاتون نے ایسے منخنی سے شخص سے شادی کیوں کر لی،کسی نے پیسے کا کمال کہا تو کسی دل جلے نے تبصرہ کیا یہ اس کے اپنے اعمال کی سزا ہے، اس کو ایسا ہی بندہ ملنا چاہئے تھا۔ غرض جتنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اتنے کمنٹس۔
بُرا ہو ہمارے سوشل میڈیا کا، جہاں کسی کے بھی جذبات کا تماشا لگا دیا جاتا ہے، کوئی بھی عورت یا مرد جس کی رنگت ذرا کالی ہو، ناک موٹی ہو یا پھر جسم کاتناسب غیر متناسب ہو، اس پر میمز بن جاتی ہیں، پھر طرح طرح کے کمنٹس ہوتے ہیں، ایسے ایسے جملے کسے جاتے ہیں کہ تہذیب منہ چھپائے پھرتی ہے۔ کسی کی شکل صورت کو لے کر کا مذاق اڑانے والے سوشل میڈیائی جگت بازوں کے انتہائی واہیات کمنٹس ہوتے ہیں کہ شرم آ جاتی ہے۔ کمنٹس پڑھ کے ایسے لوگوں کے چہرے واضح ہوتے ہیں اور بناء دیکھے پتہ چل جاتا ہے یہ لوگ کتنے بدصورت ہیں کہ اصل چیز سوچ اور عمل ہے جو انسان کو خوبصورت یا بدصورت بناتی ہے۔
کسی کا محبوب ہونے کے لئے چاند چہرہ، گلابی ہونٹ یا گوری رنگت ضروری نہیں۔ کالے لوگوں کے ایسے ایسے دیوانے دیکھے ہیں کہ گوری رنگت والے شرما شرما جائیں، اگر گوری رنگت ہی حسن کا معیار ہوتی تو کیا مجنوں کو کالی لیلیٰ سے محبت ہوتی، کیا افریقی یا سوڈانی لوگ ایک دوسرے سے محبت کر پاتے، ہر انسان خوبصورت ہے، ہر چہرہ حسین ہے، کیونکہ وہ کسی نہ کسی کو محبوب ضرور ہوتا ہے۔
ایک انتہائی کی خوبصورت خاتون نے خود کو آئینے میں دیکھا تو اتراتے ہوئے لگی گنگنانے، ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ پاس ہی اس کی قدرے معقول شکل میڈ کمرے کی صفائی کر رہی تھی وہ مالکن کے برابر جا کر کھڑی ہوگئی۔ پتہ نہیں مالکن کے دل پہ کیا گذری لیکن میڈ بہت اترا رہی تھی۔