وہ ریڈیو پاکستان کی پہلی خاتون سٹیشن ڈائریکٹر تھیں، بطور شاعرہ بہت سارے اخلاقی و جذباتی Taboos کو شکست دی

مصنف: زاہد مسعود
قسط:4
نسرین انجم بھٹی کی شخصیت
2016ءاپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر لے گیا۔ ان میں پنجابی اردو کی ایک بہت ہی خوبصورت اور حساس شاعرہ نسرین انجم بھٹی بھی تھیں۔ نسرین انجم بھٹی کی ذات کے کئی پہلو تھے۔ وہ ریڈیو پاکستان کی پہلی خاتون سٹیشن ڈائریکٹر تھیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے حقوق کی علمبردار اور اس ملک میں پسماندہ طبقوں کے حقوق کی جدوجہد میں تمام عمر شریک کار رہیں۔ وہ ایک ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والی دانشور تھیں مگر ان کا اصل حوالہ ان کی شاعری تھا ۔وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں تخلیقی اسلوب کی شاعرہ تھیں جن کو پڑھنے اور شیئر کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ نسرین انجم کی کتابیں کافی زیادہ تھیں مگر 2 شعری مجموعے ایسے تھے جنہوں نے ان کو اردو اور پنجابی شاعری میں ایک منفرد اور خصوصی مقام دلایا تھا۔ اردو شاعری کا مجموعہ ”بن باس“ اور پنجابی شاعری کی کتاب ”میں نیل کرائیاں نیلکاں“شاعری کے جدید نصاب میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ نسرین انجم بھٹی کی شاعری کے حوالے سے اس عہد کے ایک موقر نقاد انیس ناگی مرحوم نے کیا خوب تجزیہ کیا ہے:
”نسرین انجم بھٹی نے جہاں بہت سارے اخلاقی و جذباتی Taboos کو شکست دی وہاں اس نے شاعری کی رسمی بوطیقا کو بدلتے ہوئے نثری نظم کو بھرپور اور وسیع تر اظہار کے لیے استعمال کیا۔ نسرین کی نظموں میں ایک اندرونی بہاﺅ ہے جو الفاظ کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔“
نسرین اپنی شاعری میں نئی فارم کا ہی استعمال نہیں کرتی تھیں بلکہ تشبیہیں اور استعارے بھی نئے وضع کیا کرتی تھیں ۔ اسی طرح ان کی تلمیحات بھی منفرد تھیں۔ پنجابی اور اردو زبانوں میں ان کی شاعری کا اسلوب اور موضوعات اگرچہ مختلف نہیں مگر انہوں نے دونوں زبانوں میں مکمل دسترس کے باعث اپنے قاری سے سوچ کا رشتہ بہت مضبوط رکھا اور دونوں زبانوں کو اپنی بھرپور شاعری سے مالا مال کیا، جس کی بنیادی وجہ ان کی سوچ اور شخصیت کی گہرائی تھی۔ ان کی شاعری میں فن کی سطح بہت بلند تھی جس نے ان کے اظہار کی تاثیر میں گراں قدر اضافہ کیا۔
نسرین انجم بھٹی ایک ہمدرد انسان اور ملنسار خاتون تھیں ان کے اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے گہرے مراسم تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کے سانحے کو بڑی گہری سطح تک محسوس کیا گیا اور لوگ اب بھی ان کی محبت اور شفقت کو ایک ذاتی کمی کی طرح محسوس کر رہے ہیں۔ نسرین انجم بھٹی موسیقی اور سُر کی کافی شُدبُد رکھتی تھیں۔ ریڈیو پاکستان میں ملازمت کے دوران انہوں نے تقریباً تمام بڑے گلوکاروں کو سنا اور پھر لوگوں کو سنوایا۔ موسیقی کی تعلیم میں سلیم اقبال ان کے استاد تھے ۔ موسیقی کے علاوہ انہیں فن رقص میں دلچسپی تھی اور اس شوق کی تکمیل کے لیے وہ رقص کی کلاسیں بھی لیا کرتی تھیں۔ وہ ہر شعبے میں کچھ نیا کرنے کی آرزو مند رہتیں۔ شاعری میں بھی انہوں نے شائستہ حبیب اور فیم جوزی کے ساتھ مل کر ”ینگ پیپل فرنٹ“ کے نام سے ایک حلقہ بنایا تھا اور اس کے پلیٹ فارم سے جدید نظریات کا پرچار کیا تھا۔ ترقی پسندانہ نظریات رکھنے کے باعث انہیں انتظامی اور سماجی سطح پر کافی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر انھوں نے تمام مشکلات کا انتہائی صبرواسقامت سے مظاہرہ کیا اور اپنے ذاتی آرام و سکون کو نظریات کی خاطر تج دیا۔
( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )